مون سون بارشوں سے کراچی میں سبزیوں کا بحران جنم لے سکتا ہے؟

رسد بند ہونے سے سبزیوں کی قمیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ بیوپاریوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سبزیوں کی رسد آنے والے کچھ ہفتوں تک پوری نہیں ہوسکے گی جس سے قیمتیں بڑھنے اور سبزیوں کی مانگ میں بے پناہ اضافے کے باعث ’ایک نیا بحران‘ جنم لے سکتا ہے۔

دو اپریل 2019 کی اس تصویر میں کراچی کے ایک بازار میں خریدار ٹھیلے والے سے سبزیاں خریدتے ہوئے(اے ایف پی)

پاکستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ چند روز سے جاری مون سون کی شدید بارشوں کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سبزی منڈی میں سبزیوں کی رسد انتہائی کم ہوگئی ہے۔

رسد بند ہونے سے سبزیوں کی قمیتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ بیوپاریوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سبزیوں کی رسد آنے والے کچھ ہفتوں تک پوری نہیں ہوسکے گی جس سے قیمتیں بڑھنے اور سبزیوں کی مانگ میں بے پناہ اضافے کے باعث ’ایک نیا بحران‘ جنم لے سکتا ہے۔

سپر ہائی وی پر واقع کراچی کی مرکزی پھل اور سبزی منڈی کے بیوپاری محمد خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’23 جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کی بارشوں کے باعث سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع کو شدید متاثرہوئے ہیں جس کے باعث سبزیاں کراچی کی منڈی میں نہیں پہنچ رہیں۔‘

محمد خالد کے مطابق: ’کراچی میں سندھ کے دیگر اضلاع اور دوسرے صوبوں سے آنے والی سبزیوں کی رسد میں 60 سے زائد فیصد کمی ہوگئی ہے۔ جس کے باعث قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’15 کلو والے ٹماٹر کی پیٹی جو کچھ روز قبل دو ہزار تک بک رہی تھی، وہ ان بارشوں کے بعد منگل کو ساڑھے تین ہزارسے چار ہزار روپے تک بیچی گئی، اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ رسد کم ہونے سے قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد خالد کے مطابق کراچی میں سبزیاں سندھ کے دیگر اضلاع کے علاوہ تمام صوبوں سے لائی جاتی ہیں۔ جیسے آلو پنجاب کے ساہیوال اور دیگر اضلاع سے لایا جاتا ہے۔ ٹماٹر اور پیاز کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں سے کراچی لائے جاتے ہیں۔ جبکہ بدین، ٹھٹھہ، حیدرآباد اور صوبے کے دیگر اضلاع سے ہری سبزیاں جیسا کہ لوکی، توری، کریلا، ہری مرچ، کھیرا، دھنیا اور پودینہ لایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بہت تھوڑی مقدار میں سبزیاں ملیر اور کراچی کی دیگر جگہوں سے بھی آتی ہیں، مگر ان کی مقدار بہت کم ہے۔

محمد خالد کے مطابق: ’شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورت حال کے بعد شاہراہیں بہہ جانے سے سندھ اور بلوچستان کا زمینی راستہ بند ہوگیا۔ اس کے علاوہ صوبے کے کئی اضلاع میں شدید بارش کے بعد فیصلیں زیر آب آگئی ہیں۔ جس سے کھیتوں میں کھڑی سبزیاں خراب ہو گئی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اب اگر سبزی کا ایک ٹرک آتا ہے تو 50 بیوپاری کھڑے ہیں خریدنے کے لیے۔ جس کے بعد بولی لگتی ہے، اس طرح انتہائی مہنگے داموں سبزی خریدی جاتی ہے، اس لیے سبزی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔‘

حالیہ بارشوں کے بعد بلوچستان میں جگہ جگہ سیلابی ریلوں کے باعث سڑکیں بہہ جانے سے کوئٹہ اور کراچی کا راستہ منقطع ہوگیا ہے۔

دوسری جانب پشاور کو کراچی سے ملانے والی انڈس ہائی وے کو ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کےدرمیان چوکی والا کے مقام پر رود کوہی بہا کر لے گئی۔ جس کے باعث جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع اور پنجاب کے دیگر حصوں سے کراچی آنے والی سبزیوں کی ترسیل بھی نہیں ہوپا رہی۔

کراچی کے صدر ٹاؤن میں واقع امان ٹاور کے پاس سبزی فروخت کرنے والے دکان دار محمد ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ شاہراہوں کے سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کے بعد زمینی راستہ تو کچھ دنوں میں بحال ہوجائے گا۔ مگر جہاں سبزیاں کاشت کی تھی، وہاں پانی بھرنے کے بعد اب جب تک پانی خشک نہیں تب ہوتا تک دوبارہ کاشت ممکن نہیں، ایسے میں آنے والے وقت میں ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔‘

’ایسی صورت حال میں قیمتوں کا بڑھنا عام بات ہے۔ میں نے کل 15 کلو ٹماٹر کی پیٹی پانچ ہزار روپے میں خریدی، اس میں چار سے پانچ کلو خراب ٹماٹر نکلے۔ اب مجھے بتائیں کہ میں یہ کتنے ریٹ پر بیچوں؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان