پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس: ’کیس سادہ تھا مگر آٹھ سال لگ گئے‘

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا محفوظ فیصلہ منگل کو سنانے کا اعلان کیا ہے، جس پر مدعی اور پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اکبر ایس بابر نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی امید ظاہر کی ہے۔

تین جون 2022 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے حامی کراچی میں پارٹی چیئرمین عمران خان کی تصویر اٹھائے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے پارٹی فنڈنگ کیس کا فیصلہ کل یعنی منگل کو سنانے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا محفوظ فیصلہ منگل (دو اگست) کو سنانے کا اعلان کردیا ہے۔

کاز لسٹ کے مطابق یہ فیصلہ کل بروز منگل صبح دس بجے فیصلہ سنایا جائے گا، جس پر کیس کے مدعی اور پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اکبر ایس بابر نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی امید ظاہر کی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ کیس انہوں نے آٹھ سال پہلے دائر کیا تھا، جس پر ان کا مذاق بھی اڑایا جاتا رہا۔

بقول اکبر ایس بابر: ’یہ کیس سالوں چلتا رہا اور پیروی اپنی جیب سے کرتے رہے۔ تحقیقات بھی ہوئیں، سکروٹنی کمیٹی نے ثبوت بھی جمع کیے مگر چار ملازمین کے اکاؤنٹ میں آنے والے غیر ملکی فنڈز کی نشاندہی تو کی گئی پوری تحقیقات نہیں کی گئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ابراج گروپ سے فنڈنگ غیر ملکی میڈیا نے بھی ظاہر کر دی، یہی میرا موقف تھا کہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ پارٹی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

’میں نے اس بارے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو 2011 میں خط لکھ کر آگاہ بھی کیا لیکن وہ دانستہ خاموش رہے جس کے بعد کیس الیکشن کمیشن کے سامنے رکھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں بلکہ وہ صرف آئین و قانون کے مطابق پارٹی فنڈنگ سے متعلق فیصلہ چاہتے تھے تاکہ غیرقانونی طریقہ سے آنے والے چندے سے پارٹی چلانے کی روایت نہ پڑے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکبر ایس بابر نے بتایا کہ ’میں نے اس کیس میں پارٹی ایکٹ کی خلاف وزری کے تحت کیس دائر کیا جس میں پارٹی فنڈنگ ضبط اور نشان واپس لینے کے علاوہ سخت کارروائی بھی ممکن ہے۔‘

’عمران خان کی جانب سے پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق جو بیان حلفی جمع کروا کے واپس لیا گیا اور غلط بیانی کی گئی اس پر بھی سخت ایکشن لیا جاسکتا ہے جبکہ تحقیقات میں پارٹی اقتدار کے دوران رکاوٹیں ڈالی گئیں اور کیس کو لٹکانے کے حربے استعمال ہوتے رہے۔‘

بقول اکبر ایس بابر: ’میرا کیس سادہ تھا مگر اس میں آٹھ سال لگ گئے۔ خیر دیر آئے درست آئے اب بھی یقین ہے کہ الیکشن کمیشن ضابطے کے مطابق فیصلہ سنائے گا۔‘

کیس آخر ہے کیا؟

عمران خان کی پارٹی کی فنڈنگ کے بارے میں الیکشن کمیشن کی تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا جب پی ٹی آئی کے قیام میں مدد دینے والے اکبر ایس بابرنے دسمبر 2014 میں اس حوالے سے شکایت درج کروائی۔

اگرچہ دنیا بھر میں ہزاروں پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کے لیے رقم بھیجی تاہم بابر کی درخواست میں کہا گیا کہ اس میں ’ممنوعہ فنڈنگ‘ بھی ہوئی ہے۔

اپنے تحریری جواب میں عمران خان نے کہا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی پارٹی کو ابراج گروپ کی جانب سے ووٹن کرکٹ کے ذریعے 13 لاکھ ڈالر فراہم کرنے کا علم تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پی ٹی آئی کو دبئی کے شیخ النہیان سے ملنے والے فنڈز کے بارے میں بھی ’لاعلم‘ ہیں۔

عمران خان نے لکھا: ’عارف نقوی نے ایک بیان دیا ہے جو الیکشن کمیشن کے سامنے بھی دائر کیا گیا تھا، جس کی کسی نے بھی تردید نہیں کی اور وہ یہ تھا کہ یہ رقم کرکٹ میچ کے دوران عطیات سے آئی اور ان کی طرف سے جمع کی گئی رقم ان کی کمپنی ووٹن کرکٹ کے ذریعے بھیجی گئی۔‘

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مزید کہا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کی تحقیقات کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بارے میں تعصب سے کام لینا مناسب نہیں ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست