ڈاکٹر ایمن الظواہری: قاہرہ کے کلینک سے القاعدہ کی سربراہی تک

قاہرہ کے ایک کلینک میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی حیثیت سے ایمن الظواہری کے لیے اس وقت ’جہاد‘ کے دروازے کھلے جب ایک ملاقاتی پرکشش پیشکش لے کر آیا۔

10 ستمبر، 2003 کو الجزیرہ ٹی وی پر چلنے والی ایک فوٹیج کے سکرین گریب میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نامعلوم مقام پر دکھائی دے رہے ہیں (اے ایف پی)

قاہرہ کے ایک کلینک میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی حیثیت سے ایمن الظواہری کے لیے اس وقت ’جہاد‘ کے دروازے کھلے جب ایک ملاقاتی پرکشش پیشکش لے کر پہنچا: افغانستان میں سوویت افواج سے لڑنے والے جنگجوؤں کا علاج کرنے کا موقع۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1980 میں اس پیشکش کے ساتھ ہی الظواہری نے ایک ایسی زندگی کا آغاز کیا جس نے تین دہائیوں کے دوران اسامہ بن لادن کی موت کے بعد انہیں القاعدہ کا سربراہ بنا دیا۔

ایمن الظواہری نے 2001 میں ایک سوانح حیات اور منشور میں لکھا: ’جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ ایسا تربیتی کورس تھا جس سے ان جنگجوؤں کی تربیت ہونی تھی جنہوں نے اپنی اگلی جنگ دنیا کی سپر پاور امریکہ کے ساتھ لڑنی تھی۔‘

اسامہ بن لادن کے نائب کی حیثیت سے الظواہری ’جہادی تحریک‘ کو امریکہ کے خلاف موڑنے میں انتہائی اہم تھے۔

ایمن الظواہری اور اسامہ بن لادن نے مل کر امریکہ کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی تحریک کی بندوقوں کا رخ تبدیل کرتے ہوئے امریکی سرزمین پر اب تک کا سب سے خطرناک حملہ کیا۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر حملوں نے بن لادن کو امریکہ کا دشمن نمبر ایک بنا دیا۔ لیکن وہ ممکنہ طور پر اپنے نائب کے بغیر اسے کبھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔

جب 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے نے القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہ کو برباد کر دیا تو الظواہری نے القاعدہ کی بقا کو یقینی بنایا۔

وہ اس تحریک کا عوامی چہرہ بن گئے اور انہوں نے ویڈیو پیغامات کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا جبکہ اسامہ بن لادن بڑی حد تک پس پردہ چلے گئے۔

ایمن الظواہری 19 جون، 1951 کو قاہرہ کے نواحی علاقے مادی میں ڈاکٹروں اور علما کے خاندان میں پیدا ہوئے۔1970 کی دہائی میں جب انہوں نے سرجن کی حیثیت سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی تو وہ عسکریت پسند حلقوں میں سرگرم تھے۔

انہوں نے اپنے عسکریت پسند سیل کو دوسروں کے ساتھ ملا کر گروپ تشکیل دیا اور فوج میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد 1981 میں عسکریت پسندوں نے مصری صدر انور سادات کو قتل کردیا۔

یہ قتل گروپ کے ایک مختلف سیل نے کیا تھا اور ایمن الظواہری نے لکھا کہ انہیں اس قتل سے صرف چند گھنٹے پہلے اس سازش کا علم ہوا تھا۔ لیکن انہیں سینکڑوں دیگرعسکریت پسندوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔

1984 میں رہائی کے بعد ایمن الظواہری افغانستان واپس آ گئے اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے عرب عسکریت پسندوں میں شامل ہو گئے جو سوویت یونین کے خلاف افغانوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔

ایمن الظواہری بن لادن کے پیچھے سوڈان چلے گئے اور وہاں سے مصر کی امریکی اتحادی حکومت کو گرانے کے مقصد سے بم دھماکوں کی پرتشدد مہم کی قیادت کی۔

مصری تحریک ناکام ہو گئی لیکن ایمن الظواہری نے القاعدہ کو وہ حربے سکھائے جو انہوں نے لڑائی میں استعمال کیے تھے۔

انہوں نے خودکش بم دھماکوں کے استعمال کو فروغ دیا۔ انہوں نے 1995 میں اسلام آباد میں مصر کے سفارت خانے پر خودکش کار بم دھماکے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر القاعدہ کے مزید تباہ کن بم دھماکوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایمن الظواہری پر امریکہ میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

وہ کیسے مارے گئے؟

اے پی نے بتایا کہ صحافیوں کو بریفنگ دینے والے بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے دار کے مطابق رواں سال کے اوائل میں امریکی حکام کو معلوم ہوا تھا کہ الظواہری کی اہلیہ، بیٹی اور ان کے بچے کابل کے ایک سیف ہاؤس میں منتقل ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں حکام کو معلوم ہوا کہ الظواہری بھی کابل کے سیف ہاؤس میں موجود تھے۔ اتوار کو طلوع آفتاب کے قریب ایمن الظواہری افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک گھر کی بالکنی سے باہر نکلے۔ وہ کافی دیر وہاں کھڑے رہے۔ امریکی انٹیلی جنس نے نوٹ کیا کہ وہ اکثر ایسا کرتے تھے۔

امریکی حکام کے مطابق اس روز وہ جیسے ہی بالکنی میں کھڑے ہوئے ایک امریکی ڈرون نے ان پر اس وقت دو ہیل فائر میزائل داغے۔

71 سالہ ایمن الظواہری گذشتہ ہفتے کے آخر میں افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے۔

امریکی عہدے دار کے مطابق ڈرون حملے کے بعد کی گئی سی آئی اے کی زمینی ٹیم اور فضائی سراغ رسانی نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔

انٹیلی جنس کے ایک سینیئر عہدے دار کے مطابق الظواہری کو جس گھر میں ہلاک کیا گیا وہ طالبان کے سینیئر رہنما سراج الدین حقانی کے ایک اعلیٰ معاون کی ملکیت تھا۔

امریکی عہدے دار کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت کو کابل میں الظواہری کی موجودگی کا علم تھا۔ امریکہ نے طالبان حکومت کو اس کارروائی کی پیشگی وارننگ نہیں دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا