میرپورخاص: مسلمان خاتون سے شادی کرنے والے ہندو پر مقدمہ

پولیس کے مطابق یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 493 اے کے تحت درج کیا گیا اور ہندو شہری اور مسلمان خاتون کو حراست میں لے لیا گیا۔

چھ جنوری 2019 کو لی گئی اس تصویر میں ایک پاکستانی ہندو دولہا اور دلہن کی کراچی میں ہونے ولی شادی کی تقریب (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سندھ کے شہر میرپورخاص میں پولیس نے ایک مسلمان خاتون سے غیر قانونی طور پر شادی کرکے ساتھ رہنے کے الزام میں ایک ہندو شخص کے خلاف مقدمہ درج کرکے جوڑے کو حراست میں لے لیا۔

میرپورخاص کے ٹاؤن تھانے کی پولیس کے مطابق یہ مقدمہ حماد حمید کی درخواست پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 493 اے کے تحت درج کیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی مقدمے کی ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق تھامس آباد کے رہائشی درخواست گزار حماد حمید نے موقف اختیار کیا کہ وہ گھروں میں جاکر بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے ہیں، تاہم جب وہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع ایک رہائشی عمارت میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے گئے تو وہاں کے مکینوں نے انہیں بتایا کہ بلڈنگ کے ایک گھر میں ایک ہندو نے مسلمان خاتون کو غیر قانونی طور پر اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق حمید نے ان کے گھر جاکر معلوم کیا تو خاتون نے تصدیق کی کہ وہ مسلمان ہیں اور انہوں نے ہندو سے شادی کی ہے، لہذا ان دونوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ 

جب ٹاؤن تھانے کے لینڈ لائن نمبر پر کال کی گئی تو فون اٹھانے والے پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اطلاع ملنے پر اس گھر کے باہر بہت سے لوگ جمع ہوگئے تھے، جس کے بعد فساد کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، اس لیے پولیس نے مقدمہ درج کرکے دونوں کو حراست میں لے لیا۔‘

میرپورخاص کے سینیئر صحافی محمد ہاشم شر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاتون کا تعلق بنیادی طور پر لاہور سے ہے اور وہ کئی سال سے کراچی میں رہائش پذیر تھیں، جہاں پانچ سال قبل ان کی ملاقات ٹنڈو جان محمد کے رہائشی ہندو شہری سے ہوئی، جو بعدازاں میرپورخاص منتقل ہوگئے اور دو سال قبل دونوں نے شادی کرلی اور ایک ساتھ رہنے لگے۔

محمد ہاشم شر کے مطابق: ’جس رہائشی عمارت میں یہ جوڑا رہائش پذیر تھا، وہاں کئی فلیٹس کے مالک اور بااثر شخص سے دو دن قبل ہندو شخص کی لڑائی ہوگئی تھی، جس پر اس بااثر شخص نے ہندو شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے سے ایک دن پہلے میرپورخاص پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہندو شہری نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر تشدد کرنے والے بااثر شخص نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کروانے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے خود کو تحفظ دلوانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔‘

ہاشم شر نے مزید بتایا کہ جب مقدمے کے مدعی حماد حمید ہندو شہری کے گھر گئے تو وہ ان کے گھر کے باہر بہت دیر تک بیٹھے رہے، جس کے دوران آس پاس کے بہت سے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور فساد کا خطرہ پیدا ہوگیا، مگر اس دوران شہر کے ایک بزرگ مولانا حفیظ الرحمٰن فیض بھی وہاں پہنچے اور پولیس نے مقدمہ درج کرنے اور دونوں کو حراست میں لینے کی یقین دہانی کروائی تو پھر مولانا حفیظ الرحمٰن فیض کے کہنے پر وہاں موجود لوگ واپس چلے گئے۔‘

واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس موبائل میں بیٹھی خاتون کسی کو بتا رہی ہیں کہ انہوں نے ہندو شخص سے شادی کی ہے اور وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ 

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر کرمنل لا کے وکیل محمود عالم رضوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس نے جس الزام کے تحت ایف آئی درج کی، یعنی ایک ہندو شخص نے بغیر مذہب تبدیل کیے ایک مسلمان خاتون سے شادی کی، قانون کی شق 493 اے اس عمل کا احاطہ نہیں کرتی۔‘

قانون کی اس شق کے تحت اگر کوئی بھی مرد دھوکے سے کسی خاتون کو یہ یقین دلائے کہ وہ قانونی طور پر اس کی بیوی ہے اور اس کے ساتھ رہے، تو یہ فعل قابل سزا جرم ہے، جس کے تحت 25 سال قید کی سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب ماہر قانون دان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل قاضی اطہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں تعزیرات پاکستان میں شق ٹو اے کا اضافہ کرکے اسے اسلامی قانون پر چلنے کا پابند بنایا گیا، جس کے تحت پاکستان میں ایک غیر مسلم مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرنے کے سوا کسی مسلمان سے شادی کا اہل نہیں، مگر اہل کتاب میں سے کوئی خاتون اپنا مذہب تبدیل کیے بغیر بھی کسی مسلمان سے شادی کرسکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان