انگریز کے قانون کے مخالف مولانا صوفی محمد کون تھے؟

انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ دراصل 2005 میں آنے والا زلزلہ عوام کے گناہوں کا نتیجہ تھا، اس لیے وہ توبہ کرلیں اور  شریعت کے نفاذ میں ان کا ساتھ دیں۔

2008 میں مولانا صوفی محمد نے اس شرط پر امن لانے کا وعدہ کیا کہ پاکستان کی حکومت سوات کی مقامی عدالتوں میں شرعی نظام نافذ کرے گی(اے ایف پی)۔

والی سوات کے بعد سوات پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے مولانا صوفی محمد آج انتقال کر گئے۔ انہوں نے پاکستان کے آئین کو غیر اسلامی قرار دے کر شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں  نے اپنے مقاصد کی خاطر 1992 میں ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کے نام سےباقاعدہ ایک تنظیم بنا لی تھی ، جسے  2002  میں پرویز مشرف نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

مولانا صوفی محمد ابتدا میں جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے۔ صوفی محمد نے اگر چہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں قدرے نرم اور صلح جو رویہ اختیار کیا تھا لیکن ابتدائی ایام میں وہ مسلسل پاکستانی آئین اور قوانین کو چیلنج کرتے رہے۔ یہاں تک کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد وہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ میں نہ صرف خود شریک ہوئے بلکہ پاکستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کا فتوی لگا کر ہزاروں لوگوں کو بھی افغانستان جانے کے لیے تیار کیا۔

2001 میں افغانستان سے پاکستان واپسی پر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ مولانا صوفی محمد کی گرفتاری کے بعد ملا فضل اللہ نے تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کا باگ ڈور سنبھال لیا اور ایف ایم ریڈیو کے ذریعے شریعت کے نفاذ کی دعوت دینے لگے۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ دراصل 2005 میں آنے والا زلزلہ عوام کے گناہوں کا نتیجہ تھا، اس لیے وہ توبہ کرلیں اور شریعت کے نفاذ میں ان کا ساتھ دیں۔ اس دعوت پر بالخصوص سوات کی خواتین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ یہاں تک کہ اپنا زیور بھی انہوں نے ملا فضل اللہ کو دے دیا۔

اس کے برعکس وہ لوگ جو اس تنظیم کی نظر میں باغی تھے یا غیر اسلامی کاموں میں ملوث تھے انہیں کوڑے لگائے گئے یہاں تک کہ سر عام ان کے سر قلم کر دیے گئے۔

جیل میں قید صوفی محمد نے  ہی اپنے داماد کا نام فضل حیات سے فضل اللہ رکھا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داماد اور سسر میں کتنا مضبوط تعلق تھا۔ جب سوات کے حالات مزید خراب  ہونے لگے تو حکومت اور فوج نے صوفی محمد کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا ارادہ کر لیا، تاکہ صوفی محمد کے ذریعے ملا فضل اللہ اور دیگر شدت پسندوں کو قابو کیا جا سکے۔

2008 میں مولانا صوفی محمد نے اس شرط پر امن لانے کا وعدہ کیا کہ پاکستان کی حکومت سوات کی مقامی عدالتوں میں شرعی نظام نافذ کرے گی۔ اس معاہدے کے بعد ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ لیکن اپریل 2009 میں صوفی محمد اپنے وعدے سے یہ کہہ کر ہٹ گئے کہ حکومتِ پاکستان اپنی بات سے مکر گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

3 جون 2009 کو پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن بلیک تھنڈر سٹورم کے ذریعے مولانا صوفی محمد کے کئی نزدیکی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اوراس کے اگلے مہینے ہی مولانا کو بھی گرفتار کر لیا گیا ۔ جب کہ ملا فضل اللہ افغانستان فرار ہو کر بعد میں وہاں سے پاکستان پر حملے کرواتے رہے۔ اور پھر حکیم اللہ محسود کی وفات پر تحریک طالبان پاکستان کے امیر بھی بن گئے۔

سال 2011 میں مولانا صوفی محمد نے انسداد دہشتگردی عدالت کو بتایا کہ ان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے 4 دن بعد انھوں نے ایک خط میں بتایا کہ ’وہ (تحریک طالبان) مومن اور مسلمان کے ان صفات پر پورا نہیں اترتے جن کا ذکر پیغمبر اسلام نے کیا ہے۔‘

8 سال جیل میں گزارنے کے بعد ، جنوری 2018 میں صوفی محمد کو دوبارہ رہا کر دیا گیا۔ اب کی بار ان کی عمر اور صحت جواب دے چکی تھی۔ خود مولانا صوفی محمد نے بھی اپنی آخری سماعت میں اپیل کی تھی کہ انہیں رہا کر دیا جائے کیوں کہ ان کی صحت دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔

مولانا صوفی محمد کا تعلق لوور دیر کے گاؤں میدان سے تھا۔ انہوں نے مذہبی تعلیم صوابی کے گاؤں پنج پیر کے ایک مدرسے میں حاصل کی تھی۔ انہوں نے کچھ دینی کتابیں بھی لکھی تھیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان