عمران خان ایک بڑے سیاستدان یا تقسیم کار؟

عمران خان ایک مقبول سیاستدان ہیں مگر انہیں تاریخ سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ قوموں کو تقسیم کرنے والے رہنما تھوڑی دیر تک عوام کو بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر لمبے عرصے تک یا ہمیشہ کے لیے انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

لاہور، 13 اگست 2022: عمران خان کا لاہور میں جلسے سے خطاب۔ (تصویر: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

کسی فعال جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے اس معاشرے کی اچھی صحت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اختلاف رائے کو دبانا یا اسے ملک دشمنی سے تعبیر کرنا کسی صورت جمہوری اداروں کی صحت اور ملکی سلامتی کے لیے سودمند نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کے قیام کے وقت بہت ساری سیاسی طاقتیں اپنے مختلف سیاسی اور مذہبی خیالات کی بنیاد پر نئے ملک کے قیام کی مخالف تھیں۔ مگر ہمیں کبھی قائد اعظم کی زبان سے ان سیاسی قوتوں کے بارے میں منفی بیانات یا انہیں غدار قرار دینے کی بات سننے کو نہیں ملی بلکہ قائداعظم ان سیاسی مخالفین کے بیانیے پر حملہ کیے بغیر اس سے بڑے مقصد یعنی مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔

ان کے بعد آنے والے رہنماؤں نے سیاسی اختلافات اور مذہبی تفریق کو اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے میں بے دریغ استعمال کیا جس کی وجہ سے شروع ہی میں ہمارے سیاسی ادارے کمزور ہوئے اور مذہبی رواداری کا خاتمہ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم، جھگڑوں اور فسادات کا آغاز ہوا۔

پہلے آمر ایوب خان کے دور میں سیاسی مخالفین کو غدار کہنے کا آغاز ہوا اور اس میں قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح، جو آمریت کے خلاف برسرِ پیکار تھیں، کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان کی رحلت بھی مشکوک حالات میں ہوئی۔

سیاسی مخالفت میں حریفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی روایت کی ابتدا بھٹو دور میں شروع ہوئی اور اس کے بعد اسے آمر ضیا الحق ایک نئی سطح پر لے آئے جس میں مخالفین کو سرعام کوڑے تک لگائے گئے۔ ضیا کے بعد کے جمہوری رہنماؤں نے سیاسی ماحول میں اس تلخی کو جاری رکھا اور اپنے مخالفین کے لیے نہ صرف سیاسی عرصہ حیات تنگ کیا بلکہ انہیں مخرب الاخلاق حملوں کا نشانہ بھی بنایا۔ اس تند و تیز سیاسی ماحول میں کچھ بہتری 2007 کے میثاق جمہوریت کے بعد آئی جس میں سیاسی مخالفتیں تو جاری رہی لیکن سیاسی مخالفین پر قانونی جبر کا خاتمہ ہوا اور 2008 سے 2018 تک کسی سیاسی مخالف کو جیلوں کی ہوا نہ کھانی پڑی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 سے پاکستان کی تاریخ میں سیاسی مخالفین کے خلاف ایک نئی مہم کی ابتدا ہوئی جس میں سیاسی ظلم و ستم ڈھانے کے علاوہ مخالفین کے خلاف پہلی دفعہ حق و باطل کے استعارے استعمال کیے گئے۔ بہت سارے آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دور پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ دور سمجھا جاتا ہےجس نے نہ صرف پاکستانی سیاسی ثقافت کو تہس نہس کیا بلکہ عوام کے دلوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مہذب طریقے سے اختلاف کی بجائے ان سے ایک منظم طریقے سے نفرت کرنے کا آغاز کیا گیا۔

اس نفرت کی مہم نے اب پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اسے سیاسی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے۔ تقریبا ہر طبقہ چاہے عام عوام ہوں یا پڑھا لکھا طبقہ، افواج میں شامل افراد یا نوکرشاہی میں شامل عملہ، پولیس یا صحافی، یا پیشہ ور طبقہ، ہر کوئی اس زہریلی تقسیم کا شکار نظر آتا ہے۔

یہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور مخالفین کی آئینی طور پر بھی سیاسی بالادستی انہیں ہرگز قبول نہیں. بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس نفرت انگیز مہم کی سربراہی ایک پڑھا لکھا آکسفورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل سیاستدان کر رہا ہے۔ ان کے مطابق جو ان کے سیاسی مخالف ہیں وہ ملک کے غدار ہیں۔ انہیں ایک لمحے کے لیے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ وہ تقریبا 65 فیصد سے زیادہ ووٹرز جنہوں نے 2018 میں ان کے سیاسی مخالفین کے حق میں ووٹ دیا ان سب کو ملک دشمن کیسے قرار دے سکتے ہیں۔

وہ اپنی اس سیاسی جدوجہد میں جس میں وہ اپنے آپ کو ’امربالمعروف‘ کا نمائندہ سمجھتے ہیں سب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ کیسے ’امربالمعروف‘ والا شخص پنجاب کے ’سب سے بڑے ڈاکو‘ کو اپنا وزیر اعلی منتخب کرواتا ہے۔ ’امر بالمعروف‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ توشہ خانے سے لیے ہوئے تحفوں کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے رہے۔ اسی طرح ’امربالمعروف‘ پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے کم قیمت پر تحائف خرید کر بھاری قیمت پر بازار میں بیچ دیے مگر انہیں اپنے اس فعل میں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔ ان کے دورِ اقتدار میں ایسے کئی تضادات ہیں جس میں ان کے بہت سارے ساتھیوں نے مالی فوائد حاصل کیے لیکن ان کے لیے ہر جواز موجود ہے۔

وہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کو تیار ہیں جو دوسروں کے لیے حرام ہے مگر ان کے لیے حلال ہے کیونکہ ان کے بقول وہ مدینہ کی ریاست بنا رہے ہیں۔ ان کے مکمل سیاسی کنٹرول حاصل کرنے میں اگر غیر سیاسی ادارے ان کی سیاسی مدد سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں تو جانور ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے وہ فوج جیسے ادارے کو بھی سیاسی بنیادوں پر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھی اشارتا افواج کو اکسانے میں مصروف ہیں کہ وہ ادارے کے اندر سے ایسا دباؤ پیدا کریں تاکہ ان کی سیاسی واپسی ممکن ہو سکے۔

بیوروکریسی میں بھی تقسیم کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور ریاستی کارندوں کو قانونی احکامات ماننے پر دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اگر بیوروکریسی قوانین کی پابندی کرے تو نواز اور شہباز کی نوکر ہے اور اگر وہ یہی کام ان کے لیے کرے تو وہ عین قانون کے مطابق ہے۔

اسی طرح عدلیہ میں بھی تقسیم کا انتشار پھیلایا جا رہا ہے اور ججوں کو ’حمایتی‘ اور ’مخالف‘ ججوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو جج ان کے حق میں فیصلہ دیں وہ محب وطن ہیں اور غدار ان کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ ان ہی بنیادوں پر وکیلوں کا بھی بٹوارا کر دیا گیا ہے۔

صحافت بھی اس شرانگیزی کا بری طرح شکار ہوئی ہے۔ غیر جانبدار یا آزاد صحافیوں کو لفافہ صحافی قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے اور جھوٹا کہا جاتا ہے جبکہ ان کی حمایت کرنے والے صحافی محب وطن ٹھہرتے ہیں۔

پولیس اگر شہباز شریف کے نیچے ہے تو وہ بدمعاش ہے اور گلو بٹوں پر مشتمل ہے مگر وہی پولیس بزدار اور پرویز الہی کے نیچے فرشتہ بن جاتی ہے۔

اس تقسیم کی مہم میں وہ اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری بھی اس کی زد میں ہے۔ ان کے مخالفین کے دور کے سرمایہ کار چور ہیں اور انہوں نے کرپشن کو فروغ دیا۔ جبکہ ان کے دور کے سرمایہ کار ولی اللہ ٹھہرتے ہیں۔

قوم کو مزید تقسیم کرتے ہوئے مذہب اور مذہبی استعاروں کو فراغ دلی سے استعمال کیا جاتا ہے اور اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ہر قسم کا مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے۔

الیکشن کمشنر یہ خود تعینات کریں تو وہ بہت نیک اور جمہوریت پسند ہے مگر وہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ دے تو مخالفین کے ہاتھوں بکا ہوا ہے۔

عمران خان ایک مقبول سیاستدان ہیں مگر انہیں تاریخ سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ قوموں کو تقسیم کرنے والے رہنما تھوڑی دیر تک عوام کو بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر لمبے عرصے تک یا ہمیشہ کے لیے انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انہیں تاریخ میں اپنی جگہ کی فکر کرنی چاہیے اور اس تلخ اور زہریلے سیاسی ماحول میں شائستگی لانے کی ضرورت ہے۔

عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف حالیہ مہم سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی عوام اور ساری سیاسی جماعتیں افواج کی سیاسی دخل اندازی کا خاتمہ چاہتی ہیں۔

اس تقریباً ناقابل یقین اتفاق رائے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس میں ساری سیاسی جماعتوں اور خصوصا عمران خان کو اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپس میں مل بیٹھ کر میثاق جمہوریت دوم پر کام شروع کرنا چاہیے تاکہ ہم معمول کی جمہوری ریاست بن سکیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ