سیلاب، سیاست اور نرگسیت

قیادت اگر سماج کے دکھوں پر مرہم نہ رکھ سکے تو کم از کم اسے نمک کا داروغہ بھی نہیں بننا چاہیے۔

27 اگست، 2022 کو پاکستان میں سوات کے علاقے مدیان میں ایک شخص اپنی بیمار بیٹی کو سیلابی پانی سے تباہ شدہ سڑک پر لے جا رہا ہے (اے ایف پی)

ادھر سیلاب لوگوں کے خواب بہا لے گیا ہے ادھر سیاسی جلسے ہو رہے ہیں۔ کوئی پانیوں میں بہتے لاشے گن کر سوگوار ہے، کوئی جلسوں میں شرکا کی تعداد کا حساب لگا کر شادمان بیٹھا ہے۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا: ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘

سوچ رہا ہوں سینے میں دل بھلے نہ ہو، آنکھ میں حیا تو ہوتی۔

پورا ملک سوگوار ہے۔ گلیوں گلیوں اداسی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ دل سے عرش تک آہیں جا رہی ہیں۔ کہیں کوئی باپ عمر بھر کی کمائی سے محروم ہوا بیٹھا ہے تو کہیں کوئی بوڑھی ماں چہرے کی جھریوں میں فرشتوں جیسی معصومیت لیے ملبے کو دیکھ کر سوچ رہی ہے کہ لمحوں میں یہ دنیا کیسے بدل کر رہ گئی۔

بچے ہیں کہ کھلے آسماں تلے یوں سہمے پڑی ہیں جیسے فاختہ کے بچے چیل کے خوف سے دبک گئے ہوں۔ انسان پتھر سے نہ بنا ہو تو اس دکھ پر رو دیتا ہے۔ یہ کیسی سفاک اور بے رحم سیاست ہے جو اس عالم میں بھی اپنے مزاج کی تہذیب نہیں کر پا رہی۔

اعلان ہوتا ہے کہ جلسہ معمول کے مطابق ہو گا۔ دکھ جب دھوپ کی طرح وجود میں اتر جاتا ہے تو آدمی سوچتا ہے جلسہ تھا جنازہ تو نہ تھا کہ ملتوی نہ ہو سکتا۔

یہ کیسی  نامبارک سیاست ہے جو صحن میں لاشے اور آہیں رکھ رکھ کر جلسے منعقد کر رہی ہے؟

ایسا ہوتا ہے کہ قیادت کارکن کے دکھوں سے بے نیاز ہوتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ دریا کنارے بیٹھے شخص کو اس آدمی کی تشنگی کا اندازہ نہیں ہو پاتا جسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑتا ہے۔

لیکن ایسی  بے ادائی پہلے کب کسی نے دیکھی ہو گی کہ بستی بستی آہیں اٹھ رہی ہیں اور سیاسی قیادت جلسے کرنے پر مچلی بیٹھی ہو۔ یہ کیسی نرگسیت ہے اور یہ کیسی سرد مہری ہے؟

متاع دل کی ایسی ناقدری  پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ اب تو سماج کی حسیات میں فتنے رکھ دیے گئے ہیں۔

سیاست میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور گاہے ان میں غیر معمولی شدت بھی آ جایا کرتی ہے لیکن سماجی قدروں کو کبھی کسی نے یوں پامال نہیں کیا۔

یہ تو ہماری دیہی تہذیبی  روایات کا حصہ ہے کہ پڑوس میں لاشہ پڑا ہو تو خوشیاں نہیں منائی جاتیں، شادیانے نہیں بجائے جاتے اور اودھم نہیں مچایا جاتا۔

حفظ مراتب کے بوجھ تلے قلم  بھاری ہو رہا ہے لیکن پھر بھی یہ ضرور عرض کروں گا کہ سماجی اقدار سے ایسی بے نیازی نفسیاتی عدم توازن کی خبر دے رہی ہے۔

کچھ چیزیں علامتی ہوتی ہیں مگر اہم ہوتی ہیں۔ دکھ کے وقت کسی کو کندھا فراہم کر دینے سے اس کا دکھ کم نہیں ہوتا لیکن اس کی روح کی رفو گری ہو جاتی ہے۔

عمران خان انتخابی مہم کے دوران گر گئے تو نواز شریف ان کی عیادت کو جا پہنچے۔ نواز شریف کے گھر لاشے گئے تو عمران خان دو قدم چل کر نہ جا سکے۔

پڑوس میں صدیق الفاروق کے جواں سال بیٹے کا انتقال ہو گیا، عمران دو قدم کی مسافت طے نہ کر سکے۔

میانوالی میں کزن نجیب اللہ نیازی کا انتقال ہو گیا عمران خان جنازے میں جانے کی بجائے ڈی چوک کے دھرنے میں اپنی برتھ ڈے کا کیک کاٹتے رہے۔

ان کے دور اقتدار میں ڈاکٹر عبد القدیر خان اور سید علی گیلانی کا انتقال ہوا۔ چند قدم کے فاصلے پر ایک کا جنازہ اٹھا اور دوسرے کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔

عمران دونوں میں شریک نہ ہو سکے۔ کوئٹہ میں لوگ لاشے لے کر بیٹھے رہے اور مطالبہ تھا تو صرف اتنا کہ وزیر اعظم ہمارا دکھ سنیں تو ہم لاشے دفنائیں گے۔ وزیر اعظم نے جانا گوارا نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بارگاہ اقتدار سے ارشاد ہوا: ’کوئی مجھے بلیک میل نہیں کر سکتا۔‘

نعیم الحق جیسے دوست کا انتقال ہوا ان کے اہل خانہ کو وزیر اعظم ہاؤس بلا کر تعزیت کی گئی۔ یہ رویے ذاتی زندگی میں توشاید گوارا کیے جا سکتے ہوں، اجتماعی قومی زندگی میں نہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریاں جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زیادہ ہیں۔ دونوں میں حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ اس یاد دہانی کا تعلق الزام سے نہیں، ذمہ داری سے ہے۔

جنوبی پنجاب کے ان علاقوں سے تحریک انصاف کے امیدوار جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ عثمان بزدار کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔

سیلاب نے لوگوں کی زندگی اجاڑ دی ہے لیکن یہ قیادت مفقود الخبر ہے۔ یہ کیسی لاتعلقی ہے کہ اپنے حلقے کی ماؤں بیٹیوں کی خبر گیری کا وقت نہیں ہے لیکن جلسئہ عام برپا کر نے کا وقت ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا جلسوں میں جھونکے جانے والے وسائل کا رخ سیلاب زدگان کی طرف کر دیا جاتا۔ لیکن یہاں عالم یہ ہے کہ فنڈ ریزنگ کی کال دی گئی ہے مگر سیلاب زدگان کے لیے نہیں، اپنی سیاسی جماعت کے لیے۔

اہل سیاست میں سے سرخرو تو کوئی بھی نہیں۔ ہیلی کاپٹر سے چند تھیلے آٹے کے پھینکنے والے شہباز شریف اور بلاول بھٹو بھی نہیں، کہ یہ وقت فوٹو شوٹ کا نہیں، زمین پر اتر کر دکھ بانٹنے اور حکمت عملی ترتیب دینے کا ہے، جس میں وہ بھی ناکام ہیں۔

لیکن جس برفاب بے نیازی کا مظاہرہ تحریک انصاف کی قیادت نے کیا ہے، وہ اپنی نوعیت کی واحد شرمندگی ہے۔

ایسا تغافل، ایسا تجاہل، ایسا تساہل

قیادت اگر سماج کے دکھوں پر مرہم نہ رکھ سکے تو کم از کم اسے نمک کا داروغہ بھی نہیں بننا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ