ایک نئی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیلا پیدا کرنے والے کاشت کاروں کو بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔
بین الاقوامی ترقیاتی فلاحی ادارے کرسچن ایڈ کی پیر کو جاری ہونے والی تجزیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے کیڑے کیلے کی فصل کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
رپورٹ میں اس مقبول پھل کے لیے ایک سنگین منظرنامہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیلا پیدا کرنے والے کئی علاقے تباہ ہو سکتے ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین میں کیلے کی کاشت کے لیے سب سے موزوں علاقوں میں سے تقریباً دو تہائی علاقے 2080 تک ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ خطہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 80 فیصد کیلا برآمد کرتا ہے۔ رپورٹ میں منڈی میں پڑنے والے شدید خلل کے امکانات کو اجاگر کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیلے 15 سے 35 درجے سیلسیئس کے درمیان درجہ حرارت میں اگتے ہیں، لیکن یہ پانی کی کمی کے حوالے سے بھی نہایت حساس ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بڑھتے ہوئے شدید موسمی حالات پودے کی ضیائی تالیف (photosynthesis) کی صلاحیت کو متاثر کر رہے ہیں۔
فوزیریم ٹراپیکل ریس فور جیسے امراض بھی حالیہ برسوں میں ایک بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر سامنے آئے ہیں، جو لاطینی امریکہ میں کیلا فارموں کے مکمل خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔
کرسچن ایڈ نے اس خطے کے کسانوں کا حوالہ دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کے فارم ’مر رہے ہیں‘ اور اس کے نتیجے میں ان کی آمدن متاثر ہو رہی ہے۔
کیلے کی کاشت کار 53 سالہ اوریلیا پاپ ژوجو گواٹے مالا میں رہتی ہیں، نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی ہماری فصلیں تباہ کر رہی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ کوئی آمدن نہیں، کیونکہ ہم کچھ بیچ ہی نہیں سکتے۔ ہو یہ رہا ہے کہ میرا باغ مر رہا ہے۔‘
’ماضی میں، یہ پیش گوئی کی گئی کہ یہ سب کچھ مستقبل میں ہو گا لیکن یہ وقت سے پہلے ہی ہو گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی دھرتی ماں، اپنے قدرتی نظاموں کا خیال نہیں رکھ رہے۔ یہ سب ہمارے بچوں، اور خاص طور پر ہمارے پوتوں پوتیوں کے لیے بہت تشویش ناک ہے۔‘
ان نتائج کی روشنی میں، کرسچن ایڈ ترقی یافتہ ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے فوری طور پر اپنے کاربن اخراج میں کمی لائیں۔
ادارے نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بین الاقوامی موسمیاتی مالی امداد کے ذریعے کیلا کاشت کرنے والوں اور زرعی برادریوں کو بدلتے ہوئے موسم کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مدد فراہم کی جائے۔
اوسائی اوجیغو جو کرسچن ایڈ کی پالیسی اور مہمات کی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا: ’کیلا نہ صرف دنیا کا پسندیدہ ترین پھل ہے، بلکہ یہ کروڑوں افراد کی بنیادی غذا بھی ہے۔‘
’ان لوگوں کی زندگیاں اور روزگار خطرے میں ہیں جنہوں نے موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘
اوجیغو نے ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے نئے قومی موسمیاتی ایکشن پلانز کے لیے اس سال کی ڈیڈ لائن کو ایک موقع کے طور پر استعمال کریں تاکہ روایتی ایندھن سے دوری کے عمل کو تیز کیا جا سکے اور یہ یقینی بنایا جا سکے کہ موسمیاتی مالی امداد ’ان لوگوں تک پہنچے جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔‘
ادھر صارفین اور کاروباری اداروں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ فئیر ٹریڈ سے تصدیق شدہ کیلے خریدیں، جو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسانوں کو ان کی فصل کا بہتر معاوضہ ملے گا۔
فئیر ٹریڈ فاؤنڈیشن میں کیلے کے لیے سینیئر سسٹین ایبل سورسنگ مینیجر اینا پیریڈیس نے کہا: ’منصفانہ قیمتوں کے بغیر کیلا کاشت کرنے والے کسان اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔‘
’فئیرٹریڈ اس بات کا عزم رکھتا ہے کہ کیلا پیدا کرنے والوں کی آمدن، معیار زندگی اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ کاشت کاری جاری رکھ سکیں اور بدلتے ہوئے موسم سے نمٹ سکیں۔
’ کاروباری ادارے اس مقصد کی حمایت فئیر ٹریڈ کے مشترکہ اثرات کے منصوبے کے ذریعے کر سکتے ہیں جو خریداروں کو ایک ساتھ لاتا ہے تاکہ طویل مدتی خریداری کے وعدے، زیادہ شفافیت، اور کیلا کاشت کاروں کے لیے فئیر ٹریڈ شرائط پر زیادہ فروخت کے مواقع یقینی بنائے جا سکیں۔‘
ہولی ووڈورڈ ڈیوی، جو کیلا سپلائی چین میں کام کرنے والے ادارے بینانا لنک کی پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر ہیں، نے کہا: ’موسمیاتی بحران اور اس سے جڑا حیاتیاتی تنوع کا بحران اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ صنعتی سطح پر خوراک کی پیداوار کے نظام پر ازسر نو غور کیا جائے، جو نقصان دہ کیمیکلز کے بڑھتے ہوئے استعمال پر انحصار کرتا ہے۔
’حکومتوں کو چاہیے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں۔ بہت زیادہ زہریلے کیمیکلز پر پابندی عائد کریں، اور منصفانہ، مستحکم اور صحت مند خوراک کے نظام کی طرف منتقلی میں سرمایہ کاری کریں۔‘
© The Independent