سیلاب کی تباہ کاریوں کے ملکی معیشت پر اثرات

معاشی ماہرین کے مطابق ملک میں پہلے ہی ڈالرز کی قلت ہے اور سیلاب کی صورت میں جو معاشی نقصان ہوا ہے اس سے درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا دباؤ روپے پر پڑے گا اور ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

صوبہ سندھ کے علاقے جیکب آباد میں مویشیوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے ریلوے ٹریک پر باندھا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سجاول کا سب کچھ اجڑ چکا ہے۔ اس کے دو بچے، پانچ گائے، تین بکریاں اور گھر سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ بچوں کی لاشیں ایک ٹیلے کے ساتھ جڑی ہوئی ملی ہیں۔ پانچ ایکڑ زمین پر لگائی گئی فصل بھی تباہ ہو چکی ہے۔ پورا گاؤں دریا میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن پینے کے لیے ایک گھونٹ صاف پانی میسر نہیں ہے۔

وہ اڑتالیس گھنٹوں سے بھوکا ہے۔ کوئی امداد اور خوراک اس تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر مزید ایک دن تک کچھ کھانے پینے کا سامان اس تک نہیں پہنچا تو وہ بھوک اور پیاس سے مر جائے گا۔

یہ صرف سندھ کے سجاول کی کہانی نہیں ہے بلکہ بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بسنے والے ہزاروں پاکستانیوں کو اسی صورت حال کا سامنا ہے۔

ایک طرف سیلاب زدہ علاقوں میں عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور دوسری طرف ملکی معیشت بھی مزید زیر عتاب آ رہی ہے۔

اس حوالے سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے جنرل سیکرٹری رضا باقر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کپاس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ’سندھ میں بیشتر کپاس فصلوں سے اتار لی گئی تھی اور وہ مارکیٹ میں آ بھی گئی تھی، لیکن انہیں جن گوداموں میں رکھا گیا تھا وہ بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اکثر گوداموں کے سیلاب میں بہہ جانے کی اطلاعات ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پنجاب کی کپاس ابھی تک فصلوں سے نہیں اتاری گئی تھی، جس کے باعث پنجاب میں کپاس کو نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ایسی صورت حال میں کپاس کی درآمدات میں اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف چین میں سیلاب کی وجہ سے کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے، جس سے خدشہ ہے کہ بین الاقومی مارکیٹ میں بھی کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی، جس سے ٹیکسٹائل صنعت کے ورکنگ کیپیٹل پر فرق پڑے گا۔ موجودہ حالات میں ٹیکسٹائل کا شعبہ پہلے ہی مالی بحران کا شکار ہے۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو ٹیکسٹائل برآمدات کا حدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔‘

میاں عبدالحنان پاکستان میٹ ایکسپورٹرز اینڈ پروسیسرز ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ وہ پاکستان کے بڑے میٹ ایکسپورٹرز میں شامل ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں سیلاب سے ایک طرف فصلیں اور گھر متاثر ہوئے ہیں، وہیں لائیو سٹاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

’چھوٹے کسان کے لیے اس کے جانور کل کائنات ہوتے ہیں۔ جانوروں کے سیلاب میں بہہ جانے سے ایک طرف کسان کنگال ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ملکی زرمبادلہ میں شدید کمی آنے کا خدشہ ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک میں پاکستانی گوشت کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں ڈیمانڈ پوری کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ مارکیٹ میں حلال جانوروں کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ انڈیا اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر خلیجی ممالک میں گوشت کی برآمدات بڑھا سکتا ہے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لائیو سٹاک کو مزید نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔

دوسری جانب رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق سینیئر وائس چیئرمین فیصل جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہائبرڈ چاولوں کی پیداوار سندھ میں زیادہ ہے۔ چاولوں کی ایک فصل جولائی میں اترتی ہے اور دوسری نومبر میں آتی ہے۔ جولائی والی فصل تو مارکیٹ میں آ چکی ہے لیکن نومبر کی فصل کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

فیصل جہانگیر کے مطابق: ’سندھ سیلاب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن ابھی تک حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ جب پانی اترے گا تب صحیح اعداد و شمار سامنے آ سکیں گے۔ باسمتی چاول کی پیداوار چونکہ وسطی پنجاب میں زیادہ ہے، اس لیے اس کا نقصان نہیں ہوا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پاکستان کی چاول کی برآمدات کس حد تک متاثر ہوتی ہیں اس کا درست اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہو سکے گا۔‘

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والا نقصان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی صنعتوں کا بیشتر خام مال زراعت سے منسلک ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کسان اور عام آدمی کے نقصان کی بات کی جا رہی ہے لیکن جو فیکٹریاں اور صنعتیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں ان کی آواز کوئی نہیں اٹھا رہا۔ سیلاب کے راستے میں آنے والی فیکٹریوں کی مشینری یا تو بہہ گئی ہے اور جو بچ گئی ہے وہ استعمال کے قابل نہیں رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ صرف کپاس کا نقصان نہیں ہوا ہے بلکہ سبزیاں، دالیں، پھل اور دیگر زرعی اجناس کی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے لیکن موجودہ حکومت اسے حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

بقول خالد عثمان: ’اطلاعات ہیں کہ چین، امریکہ اور یورپی یونین نے صرف چند ملین ڈالرز دینے کا عندیہ دیا ہے اور بڑی رقم امداد کے طور پر دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک نے بھی پرانی امداد کو ری شیڈول کرنے کی بات کی ہے اور کوئی بڑی امداد نہیں دی جا رہی۔ شاید ان ممالک اور اداروں کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔‘

شعیب ظفر سرکاری ملازم ہیں اور عوامی ویلفیئر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موجودہ صورت حال میں چندا مافیا پھر سے سر اٹھانے لگا ہے۔ روز نجی نمبروں سے میسجز آ رہے ہیں کہ سیلاب زدگان کے لیے امداد دی جائے۔

’کرونا اور 2005 کے زلزلے کے دنوں میں اربوں ڈالرز عطیات کی مد میں وصول کیے گئے۔ بعد میں یہ رپورٹ آئی کہ 50 فیصد سے زیادہ فنڈز مستحقین تک نہیں پہنچ سکے۔ کرونا کے دنوں میں مافیاز راشن اور دیگر سامان لے کر رکشوں پر لادتے اور دکانوں پر بیچ آتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اب جو شخص سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتا ہے وہ کنفیوز ہے کہ کس پر اعتماد کرے۔ ’ہماری حکومت پر بیرونی ممالک اور مالیاتی ادارے اعتماد نہیں کرتے تو عوام ان پر کیسے اعتماد کر لیں۔ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کا وفد سپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں کینیڈا کی سیر کر رہا ہے۔‘

’مولانا فضل الرحمٰن ترکی کے طویل دورے کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔ عمران خان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ہے لیکن وہ سیاسی جلسے کرنے میں مصروف ہیں۔ سیلاب آئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن وزیراعظم صاحب نے دو دن پہلے میڈیا پر آکر سیلاب متاثرین کے حوالے سے لب کشائی کی ہے۔‘

’حکومت کو سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ حکومتی مدد کے بغیر عام آدمی بھی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ عام آدمی کناروں پر بیٹھے افراد کو تو مالی امداد پہنچا سکتا ہے لیکن درمیان اور پیچھے پھنسے لوگوں تک امداد پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے، جو کہ سرکار کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔‘

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس سیلاب نے ملکی مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو ورلڈ بینک کے مطابق 2010 کے سیلاب میں پاکستان کے انفراسٹرکچر، کھیتوں،مکانات اور دیگر شعبوں کو تقریباً 9.7 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔

’اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی کے مطابق نقصان کی مالیت تقریباً 43 ارب ڈالر تھی۔ این ڈی ایم اے کے مطابق موجودہ سیلاب کے نقصانات 2010 کے سیلاب کے نقصانات کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ اس وقت بحالی کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ مخیر حضرات کو آگے آنا چاہیے۔‘

’اگر صاحب حیثیت لوگ امداد نہیں کر رہے تو حکومت کو چاہیے کہ ان کی آمدنی پر ٹیکسز لگا کر سیلاب متاثرین کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جائیں۔ سڑکیں، پل اور ریلوے لائنز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پانی میں ڈوب چکا ہے۔ پاکستان درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ اگر فوری طور پر انفراسٹرکچر بحال نہیں کیا گیا تو پورے ملک میں غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ ادویات کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے اور صنعتیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔‘

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں پہلے ہی ڈالرز کی قلت ہے اور سیلاب کی صورت میں جو معاشی نقصان ہوا ہے اس سے درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا دباؤ روپے پر پڑے گا اور ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

بقول ظفر پراچہ: ’خصوصی طور پر زرعی اجناس کی ممکنہ قلت کو پورا کرنے کے لیے درآمدی آرڈرز ابھی سے بک کروانے کی اطلاعات ہیں۔ ایران کے راستے زرعی اجناس کی پاکستان سمگلنگ کے بھی امکانات زیادہ ہیں، جس کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ چونکہ ایران سے اجناس سمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں اس لیے ڈالر بھی سمگل ہو کر ایران جاتے ہیں۔ جس سے روپے پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے، لیکن پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ سرکار اس صورت حال میں کسی طرح کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔‘

ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ معاشی مشکلات سے دو چار پاکستانی عوام کے لیے سیلاب نئے بحران لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ شرح نمو میں مزید کمی آ سکتی ہے اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف سیلاب سے قبل ہی ستمبر، اکتوبر میں مزید مہنگائی کی پیشگوئی کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ سیلاب میں پھنسے عوام شاید کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل گھڑی میں کوئی ان کا ہاتھ تھامتا ہے یا نہیں۔ یہ وقت حکومت کے لیے بھی ایک امتحان ہے۔ کیا سرکار اس امتحان میں بہتر کارکردگی دکھا پائے گی یا نہیں، اس کا اندازہ چند دنوں میں ہو جائے گا، لیکن ماضی کے پیش نظر حکومت سے زیادہ امیدیں لگانا عبث ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ