کیا پاکستانی کرکٹرز کے فٹنس مسائل کی وجہ زیادہ کرکٹ ہے؟

ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف میچ سے قبل شاہین شاہ آفریدی اور میچ کے بعد نسیم شاہ، حارث رؤف اور محمد رضوان کو دیکھ یہ سوال اٹھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ مگر کیا صرف پاکستانی کھلاڑی ہی فٹنس مسائل سے دوچار ہیں؟

پاکستانی فاسٹ بولر نسیم شاہ انڈیا کے خلاف میچ کے دوران ٹانگ میں تکلیف محسوس کر رہے تھے (اے ایف پی)

ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے میچ کو اب چار دن ہونے کو ہیں مگر اس پر بات اب بھی ہو رہی ہے، اور کیسے نہ ہو انڈیا کا پاکستان سے یا پاکستان کا انڈیا سے ہار جانا کسی بھی طرح ہضم نہیں ہوتا۔

شائقین کرکٹ خاص طور پر پاکستانی فینز کو اس بار انڈیا سے ہار پر بظاہر تو زیادہ دکھ نہیں ہوا، شاید اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ میچ برابری کا تھا اور پاکستان نے انڈیا کو آسانی سے جیتنے نہیں دیا۔

دوسری وجہ میچ سے پہلے اور بعد میں بھی دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کی وہ ویڈیوز اور تصاویر بھی ہیں جن میں انہیں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مگر جو بات اس وقت بہت سے پاکستانی فینز کے دماغ میں اٹک سی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر پاکستانی بولرز کو فٹنس کا مسئلہ نہ ہوتا تو شاید ’ہم جیت سکتے تھے‘۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ انڈیا کے خلاف میچ میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے نسیم شاہ نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کریئر کا شاندار آغاز تو کیا اور اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ میدان موجود شاہین شاہ آفریدی کو بھی خود کھڑے ہو کر داد دینا پڑی۔

مگر جب انہیں میچ میں دوسرے سپیل کے لیے کپتان نے گیند تھمائی تو وہ اچانک لنگڑانے لگے اور ایک موقعے پر تو ان کے لیے دوڑنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔

ساتھ ہی ٹیم میں موجود سینیئر بولر حارث رؤف کا حال بھی یہی تھا اور انہیں بھی رن اپ سے بھاگ کر گیند پھینکنے کے لیے دو بار رک کر واپس جانا پڑا تھا۔

جیسے ہی میدان میں موجود شائقین اور ٹی وی پر مداحوں نے یہ مناظر دیکھے تو انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر یہ اچانک ہوا کیا۔

خیر جیسے تیسے پاکستانی بولرز نے اوورز مکمل کیے اور میچ پاکستان کی ہار پر ختم ہوا تو بحث کا رخ فٹنس کی طرف ہو گیا۔ اور اگر آپ تو یاد ہو تو ایسی ہی بحث شاہین آفریدی کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے پر بھی شروع ہوئی تھی۔

کیا یہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے؟

اس وقت یہ باتیں صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہی ہیں بلکہ دنیا کے کئی کھلاڑیوں کو انجریز کے مسائل درپیش ہیں۔

جیسا کہ انڈیا کے جسپریت بمرا ہی کو دیکھ جو انجری کے باعث ہی ایشیا کپ میں انڈین سکواڈ کا حصہ نہیں ہیں۔

اسی طرح ابھی حال ہی میں آسٹریلوی ٹیم کو بھی اس وقت انجریز کا سامنا کرنا پڑا جب سٹیو سمتھ، ایشٹن ایگار، مارکس سٹوائنس، شان ایبٹ، کین رچرڈسن، مچل سٹارک اور مچ مارش کو مختلف نوعیت کی انجریز کےمسائل ہوئے۔

کچھ اسی طرح کے مسائل کا سامنا انگلینڈ ٹیم کو بھی درپیش رہا ہے۔ رواں سال ہی انگلش سلیکٹرز کی مشکل یہ تھی کہ ٹیم میں آخر کس کو شامل کیا جائے کیونکہ زیادہ فاسٹ بولرز کو انجریز کا سامنا تھا۔

ان بولرز میں جوفرا آرچر، ثاقب محمود، میٹ فشر، اولی سٹون، سیم کرن، مارک ووڈ، کرس ووکس جیسے نام شامل رہے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن پر انگلینڈ بھروسہ کرتا آیا ہے۔

کیا بہت زیادہ کرکٹ ہو رہی ہے؟

کئی کرکٹ ماہرین اور سابق کھلاڑی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کی انجریز کی وجہ بے تحاشا کرکٹ ہے جبکہ کچھ کے خیال میں وجہ یہی ہے۔

انڈیا کے خلاف میچ کے بعد پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف نے ایک یوٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹرز بہت زیادہ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی انہیں سفر بھی کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ اگر فاسٹ بولرز کی بات کی جائے تو انہیں زیادہ جان لگانا پڑتی ہے جس سے فٹنس کے مسائل ہو سکتے ہیں۔

راشد لطیف نے محمد رضوان کے حوالے سے کہا کہ وہ مسلسل کرکٹ کھیل رہے ہیں اور ایسے میں انہیں کاؤنٹی کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے تھی۔

’محمد رضوان پی ایس ایل کے فوراً بعد کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے چلے گئے، ان پر بہت زیادہ لوڈ ہے۔ اگر وکٹ کیپر کو چھوٹی سی بھی انجری ہو جائے تو وہ اسے ساتھ کر چلتا ہے۔‘

گذشتہ سال کرکٹ ویب سائٹ وزڈن نے بھی ایسا ہی سوال اٹھایا تھا کہ کیا دنیا میں کرکٹ بہت زیادہ ہو رہی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزڈن کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ٹاپ انٹرنیشنل کھلاڑی ایک سال کی 250 راتیں ہوٹلوں میں گزارتے ہیں۔ یعنی آپ کی 70 فیصد زندگی کھیل کی رنگینیوں میں گزر رہی ہے اور 70 فیصد زندگی اپنے پیاروں اور گھر سے دور۔ نتیجتاً ایک انٹرنیشنل کرکٹر کو پے چیک کے ساتھ ساتھ ہیلتھ وارنگ ملتی ہے۔

سینیئر صحافی مرزا اقبال بیگ سمجھتے ہیں کہ لوڈ ٹھیک سے مینیج نہیں کیا گیا۔ ’اگر پی سی بی ٹیم مینیجمنٹ ٹھیک سے لوڈ مینجمنٹ کرتی تو ایسا نہ ہوتا۔‘

اردو نیوز سے وابستہ اور کرکٹ پر نظر رکھنے والے صحافی زبیر علی خان سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے کرکٹرز میں انجریز کے مسائل کی ایک وجہ تو یقینی طور پر زیادہ کرکٹ ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے کھلاڑی تمام فارمیٹس کھیلنا نہیں چاہتے۔

زبیر علی خان کہتے ہیں کہ اتنی زیادہ کرکٹ کے باعث دنیا کے کئی ٹاپ پلیئرز جن میں بین سٹوکس تازہ مثال ہیں اور اگر پاکستان سے دیکھا جائے تو محمد عامر ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے تمام فارمیٹس کھیلنے سے معذرت کر لی۔

ساتھ میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف کرکٹ کا زیادہ ہونا ہی مسئلہ نہیں بلکہ دیگر وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے کرکٹرز اور خاص طور پر بولرز کو فٹنس مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

زبیر علی خان سمجھتے ہیں کہ اس میں آئی سی سی کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ اگر اتنی زیادہ کرکٹ ہو گی اور دنیا کے ٹاپ کھلاڑی حصہ نہیں بن سکیں گے تو دیکھے گا کون؟ ’آئی سی سی کو اس ساری صورت حال پر توجہ دینا ہوگی تاکہ کرکٹ اور کھلاڑیوں کو بچایا جا سکے۔‘

کتنی کرکٹ ہو رہی ہے؟

اگر ہم ایک سال میں ہونے والی کرکٹ کا سیدھا سیدھا جائزہ لیں تو دنیا میں کرکٹ لیگز ہی اتنی ہو رہی ہیں کہ اب شاید بہت سے شائقین کو ان کے نام اور ممالک کا بھی علم نہ ہو۔

بڑی بڑی لیگز میں انڈین پریمیئر لیگ، پاکستان سپر لیگ، بگ بیش، دی ہنڈرڈ، کیئریبین کرکٹ لیگ وغیرہ وغیرہ ایسے کرکٹ ٹورنامنٹس ہیں جو ہر سال ہونے ہی ہیں۔

اس کے بعد باری آتی ہے قومی کرکٹ، ڈومیسٹک کرکٹ۔ پھر فارمیٹس میں جائیں تو ٹی 20 کرکٹ، ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ۔

تو ہر ایک کھلاڑی کو اپنی قومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لیگز کا حصہ بھی بننا ہے جو کہ ان کے لیے بہت ضروری اس لیے ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کسی ایک سیریز یا لیگ سے معذرت کرنے کا سوچیں بھی تو ان کے ذہن میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اگلی بار کوئی اور کھلاڑی پرفارم کر کے ان کی جگہ لے لے گا۔

دنیا میں ہونے والی کرکٹ کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ حال ہی میں انگلینڈ کی ایک سیریز ہفتے کے آغاز میں ختم ہوئی تو اسی ہفتے کے اختتام پر نئی سیریز شروع ہو گئی۔

پاکستان ابھی سری لنکا، نیدر لینڈز سے ہو کر ایشیا کپ میں شرکت کے لیے آیا ہے اور اس کے فوراً بعد ہی اسے انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کھلینا ہے جبکہ اس کے بعد سیدھے آسٹریلیا جانا ہے جہاں ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلا جانا ہے۔

انگلینڈ جنوبی افریقہ کے ساتھ کھیل رہا ہے، آسٹریلیا ابھی زمبابوے کے ساتھ کھیل رہا ہے اور پھر اسے انڈیا سے کھیلنے جانا ہے۔

ایسے میں کرکٹرز کے لیے ’آرام کرنا‘ مشکل ہے اور فٹنس کے مسائل ہونا طے ہے۔

پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟

ابھی پاکستان کے ٹاپ بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہیں، محمد وسیم جونیئر بھی فٹنس مسائل سے دوچار ہیں اور انڈیا کے خلاف میچ میں دو فاسٹ بولرز اور وکٹ کیپر بلے باز کو پہلے ہی لنگڑاتے اور میدان پر لیٹے دیکھ چکے ہیں۔

دیگر جن ٹیموں کی بات ہم نے اوپر کی ان کے پاس بینچ پر اتنے کھلاڑی بیٹھے ہیں کہ اگر کسے سیریز میں بڑے کھلاڑی کو آرام دے بھی دیا جائے تو شاید اتنا مسئلہ نہیں ہوتا مگر پاکستان کا حال یہ ہے کہ ایک شاہین آفریدی باہر ہوئے تو ہر طرف سے آواز آئی کہ ’اب کیا ہوگا، کون جتوائے گا؟‘

سینیئر صحافی مرزا اقبال بیگ نے فٹنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’اب دیکھیں شاہین آفریدی 2018 سے مسلسل کرکٹ کھیل رہا ہے، جس میں 25 ٹیسٹ، 32 ون ڈے اور 40 ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل وغیرہ الگ ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب فٹنس کا مسئلہ ہو گیا تو پہلے ہم انہیں نیدرلینڈز لے گئے، پھر دبئی لے آئے۔

مرزا اقبال بیگ کے مطابق ہر میچ کے لیے بیک اپ تیار کرنا سلیکشن کمیٹی کا کام ہوتا ہے۔

انہوں نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا سکواڈ اور کپتان بدل بدل کر دورے کرتا رہا ہے۔ ’ہم ایک ہی ٹیم کھلائے جا رہے ہیں چاہے مقابلہ کمزور ٹیم سے ہو یا مضبوط سے۔‘

انہوں کہا کہ ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بس جیتنا چاہتے ہیں۔‘

صحافی زبیر علی خان کہتے ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ سلیکشن کمیٹی کی کارکردگی بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سلیکشن کمیٹی میں شامل ارکان کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ ساتھ ساتھ بیک اپ بھی تیار کرتے ہیں، جو کہ پاکستان میں بظاہر دکھائی نہیں دے رہا۔

’محمد حفیظ اور شعیب ملک کا بیک اپ کہاں ہے؟ محمد آصف، خوشدل شاہ مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، کوئی ایسا پلیئر تیار ہی نہیں کیا جو ان کی جگہ لے سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کرکٹرز کو محفوظ کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ ’اگر شاہین آفریدی زخمی تھے تو انہیں نیدرلینڈ اور متحدہ عرب امارات کیوں لے جایا گیا؟‘

’پھر کچھ ذمہ داری کپتان پر بھی آتی ہے، کہ اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹاپ پلیئرز کا استعمال سمجھ داری سے کرے۔‘

انگلینڈ، انڈیا اور آسٹریلیا کے سکواڈز ’چھوٹی‘ ٹیموں کے خلاف اٹھا کر دیکھ لیں اور پھر پاکستان کا سکواڈ بھی انہیں ٹیموں کے خلاف دیکھ لیں۔

پاکستان کو بھی اس معاملے کو دیگر ٹیموں طرح سنجیدگی سے دیکھنے، میچ ونر کھلاڑیوں کو محفوظ رکھنے اور بیک اپ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ