’جس پتھر پر میں کھڑا ہوں یہ میرا گھر تھا جو میں نے 35 سال سعودی عرب میں محنت مزدوری کرکے بنایا تھا لیکن قہر و غضب کے سیلاب نے اسے پانچ منٹ میں تباہ کر دیا۔ میرے گھر کے ساتھ زمین بھی سیلاب میں بہہ گئی۔ اب کچھ باقی نہیں رہا ہم کھلے آسمان تلے آ گئے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا سوات کی تحصیل مٹہ کے گاؤں برتھانہ کے محمد علی کا، جہاں سیلابی ریلہ 30 مکانوں کو مکمل طور پر بہا کر لے گیا اور سات کو جزوی نقصان پہنچایا۔
سیلاب نے علاقے کی زرعی اراضی کو بھی نہیں بخشا اور آڑو کے باغات اور دھان کی کھڑی فصل کو تباہ کر دیا۔
برتھانہ سوات کا سیاحتی علاقہ ہے اور وسیع زرعی زمین کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا انحصار زراعت یا پھر بیرون ملک محنت مزدوری پر ہے۔
برتھانہ میں سیلاب سے متاثرہ باچا زادہ نے بتایا کہ يہاں 37 گھروں میں 53 گھرانے آباد تھے جس کا ملبہ سامنے پڑا ہے۔
’ان لوگوں کو اب چھت کی ضرورت ہے، یہ زمین ہموار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ لوگ یہاں ٹینٹ لگا سکیں۔‘
باچا زادہ کے نذدیک سب سے بڑا مسئلہ دریا کو اپنی طرف رکھنے اور آبادی کو بچانے کے لیے حفاظتی پشتے لگانا ہے۔
انہوں نے بحالی کے حوالے سے بتایا کہ متاثرین کے پاس جو کچھ تھا سب سیلاب میں بہہ چکا، پیسہ ہو تو بحالی ممکن ہے۔
’اگر ڈونر آئیں اور بحالی کے کام میں حصہ لیں تو ہمارے گھر آباد ہو سکتے ہیں۔
’صوبائی حکومت کے طرف سے ملے ریلیف کا ذکر کروں تو مجھے حیا آتی ہے۔ ایک بستر، کچھ چیزیں اور ٹینٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور شخص خورشید خان نے بتایا کہ سیلاب سے قبل معمول کی زندگی تھی۔ ’ہماری دو مساجد جس میں ہم نماز پڑھتے تھے، سکول، ساتھ میں پانچ پن چکیاں تھیں، گھروں میں ہلہ گلہ تھا لیکن سیلاب آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ بحالی کا کام ضروری ہے کیونکہ متاثرین اپنے رشتے داروں کے ہاں مقیم ہیں۔
’حکومت پانی کو اپنی راہ پر کرے اور پشتے لگا کر اس زمین کو ہموار کرنے کے ساتھ ان لوگوں کے لیے گھر بنائیں تاکہ یہ لوگ پھر سے زندگی کا آغاز کریں۔‘
ایک اور متاثرہ شخص ماجد نے شکایت کی کہ ان کے پاس پینے کا صاف پانی نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت انہیں صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست کرے۔