برطانیہ کی نئی انڈین نژاد وزیر داخلہ سویلا بریورمین کون ہیں؟

سویلا بریورمین نے 2005 میں لیسٹر ایسٹ سے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور مئی 2015 میں فیئرہیم سے رکن پارلیمنٹ بنیں۔

سات ستمبر 2022 کو وزیر داخلہ سویلا بریورمین کابینہ کے اجلاس کے بعد لندن کی ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر۔ (فوٹو اے ایف پی)

برطانیہ میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد نئی وزیر اعظم لز ٹرس نے اپنی کابینہ  تشکیل دی ہے جس میں وزات داخلہ کا قلمدان انڈین نژاد سویلا بریورمین کو سونپا گیا ہے۔

برطانیہ کے ہفت روزہ اخبار ’ایسٹرن آئی‘ کے مطابق 42 سالہ سویلا کو ایک سال قبل بورس جانسن کی انتظامیہ میں اٹارنی جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ حکومت کی پرنسپل لیگل ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

سویلا بریورمین 2015 میں پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہونے سے پہلے بطور وکیل کام کر رہی تھیں۔

ایک اور برطانوی ہفت روزہ جریدے ’دا ویک‘ کے مطابق بیرسٹر سویلا بریورمین کو منگل کے روز ان کی پیشرو انڈین نژاد پریتی پٹیل کی جگہ برطانیہ کی نئی وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔

ان کو نو منتخب وزیر اعظم لز ٹرس نے اپنی کابینہ میں اس اہم عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔

سویلا کی ہندو والدہ اوما کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو اور مسیحی والد کرسٹی فرنینڈس کا تعلق مغربی ریاست گوا سے ہے۔

سویلا نے لندن کے ہیتھ فیلڈ سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر کوئنز کالج سے گریجویشن اور کیمبرج میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ س کے بعد انہوں نے پینتھیون سوربون یونیورسٹی سے یورپی اور فرانسیسی قانون میں ماسٹر ڈگری مکمل کی۔

انہوں نے 2018 میں رایل بریورمین سے شادی کی تھی جن سے ان کے دو بچے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہندو والدہ اور مسیحی والد اور شوہر کے باوجود سویلا خود بدھ مت کی پیروکار ہیں جو لندن کے بدھسٹ سینٹر میں باقاعدگی سے جاتی ہیں۔

انہوں نے پارلیمنٹ میں بھگوان بدھ کے اقوال پر مبنی مذہبی کتاب دھرم پادا پر اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔

انہوں نے 2005 میں لیسٹر ایسٹ سے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور مئی 2015 میں فیئرہیم سے رکن پارلیمنٹ بنیں۔

پھر وہ 2017 اور 2019 میں دوبارہ پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔

ایسٹرن آئی کے مطابق سویلا بریورمین نے ایسے وقت ہوم ڈیپارٹمنٹ کی باگ دوڑ سنبھالی ہے جب برطانوی حکومت اس وقت غیر قانونی طور پر انگلش چینل عبور کرنے والے تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قانونی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔

اس کانٹے دار سیاسی مسئلے کا حل تلاش کرنا، جس نے بالآخر سویلا کی پیشرو پریتی پٹیل سے ان کا منصب چھین لیا تھا، ان کی اولین ترجیح ہو گی۔

لیکن انہیں شدید قانونی لڑائی کا سامنا بھی کرنا ہے جو یورپی عدالتوں میں جاری ہے۔ یورپی عدالتوں نے لندن کو اب تک تارکین وطن کو ملک بدری باز رکھا ہے۔

سویلا کے والدین کا تعلق انڈیا سے تھااور انہوں نے 1960 کی دہائی میں کینیا اور ماریشس سے برطانیہ ہجرت کی تھی۔

بورس جانسن کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد سویلا وزارت عظمیٰ کے منصب کی اولین امیدواروں میں سے ایک تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا