فوڈ پانڈا کی خاتون رائیڈر: ’واؤ یار آپ تو بہت اچھا کام کر رہی ہو‘

فرحین صبح کالج جاتی ہیں اور رات میں فوڈ ڈیلیوری کا کام کرتی ہیں جس سے وہ اپنی پڑھائی اور گھریلو اخراجات پورے کرتی ہیں۔

’کوئی بھی کام نہ صرف مرد کے لیے بنا ہے اور نہ صرف عورت کے لیے، صحیح کام کسی لڑکی کا کرنا کیسے غلط ہو سکتا ہے۔‘

ایسا ماننا ہے راول پنڈی کی رہائشی فرحین زہرا کا، جو بی ایس کیمسٹری کہ طالبہ ہیں اور پڑھ لکھ کر ایئر فورس یا اٹامک کے شعبے میں خدمات سرانجام دینا چاہتی ہیں۔

فرحین فوڈ ڈیلیوری کا کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صبح کالج جاتی ہیں اور رات میں فوڈ ڈیلیوری کا کام کرتی ہیں جس وہ سے اپنی پڑھائی اور گھریلو اخراجات پورا کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کو موٹر سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنے کزن سے 10 سال پہلے بائیک چلانا سیکھی۔

ان کا یہ شوق بعد میں ان کے ذریعہ روزگار میں بہت کام آیا۔

فرحین کہتی ہیں کہ فوڈ دیلیوری کا کام ’میرے لیے آسان تھا کیونکہ موٹر سائیکل چلانا مجھے آتی تھی اور میں یہ نوکری بآسانی اپنی پڑھائی کے ساتھ کر سکتی ہوں۔‘

اپنے کام کے حوالے سے وہ مزید کہتی ہیں کہ آغاز میں یہ نوکری انہیں کافی دلچسپ لگی لیکن ان کے دماغ میں بہت سے سوالات بھی تھے، جیسے کہ لوگ کیا کہیں گے.

’مگر پھر میں نے سوچا لوگوں کا تو کچھ نہیں کیا جا سکتا کام تو کرنا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’پہلے دن جب میں گئی تو تھوڑا گھبرائی ہوئی تھی۔ نیا نیا کام تھا، کیسے ہوگا سب، اس لیے اپنے بھائی کو ساتھ لے کر گئی۔

’جب میں اپنے زون میں گئی تو لوگ بہت حیران ہوئے مجھے دیکھ کر کہ ایک لڑکی فوڈ ڈیلیوری کی نوکری کے لیے آئی ہے۔‘

’میری سوچ سے بہت مختلف ردعمل تھا لوگوں کا۔ سب نے مجھے بہت سراہا، میری حوصلہ افزائی کی جو مجھے بہت اچھا لگا۔

’میرے ساتھ کام کرنے والوں نے میری بہت مدد کی مجھے سکھایا کہ کس طرح سے آرڈر لینا ہے اور کس طرح ڈیلور کرنا ہے۔‘

فرحین نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے اپنا پہلا فوڈ آرڈر ڈیلور کیا تو ایک خاتون نے آرڈر وصول کیا اور انہیں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئیں اور کہا: ’واؤ یار آپ تو بہت اچھا کام کر رہی ہو، یہ وہ جملہ تھا جس نے میرے جذبے کو مزید بلند کر دیا، مجھے اس وقت بہت خوشی ہوئی تھی۔‘

’میں پہلی لڑکی تھی اپنی ورک پلیس میں، مجھے کبھی کچھ الگ محسوس نہیں ہوا۔ وہاں جتنے بھی مرد ساتھی ہیں مجھ سمیت سب کو برابر سمجھا جاتا ہے۔

’کبھی کوئی مجھ سے غلط انداز میں پیش نہیں آیا۔ مرد و عورت  کا فرق نہیں رہا اب۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سب کو برابر کے حقوق ملتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ معاشرے کی سوچ کافی حد تک بدل چکی ہے جس کی وجہ سے میں اپنا کام کافی اچھے سے کر لیتی ہوں۔‘

فرحین نے بتایا کہ ان کے والد تو رضامند تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بآسانی موٹر سائیکل چلا لیتی ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ جب گھر آتے تھے تو سب کا یہی کہنا تھا لڑکی ہے کیسے یہ کام کرے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کا کہنا تھا کہ حالات ٹھیک نہیں آج کل بہت وارداتیں ہو رہی ہیں تنہا لڑکی کا یوں رات میں نوکری کرنا ٹھیک نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مگر میرے والد نے مجھے اجازت دی اور جب لوگوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور سوشل میڈیا پر کافی لوگوں نے مجھے سراہا، میرے انٹرویوز ہوئے تو وہی لوگ مجھے مبارک باد کے میسیجز کر رہے تھے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ پہلے ان کی سوچ الگ تھی اور اب بالکل بدل گئی  ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب وہ آرڈر ڈیلور کرتی تھیں تو بہت سی لڑکیوں نے ان سے رابطہ کیا اور اس ملازمت کے بارے میں معلومات لیں۔

فرحین کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے مجھے کہا کہ موٹر سائیکل تو ہم بھی چلا لیتی ہیں، ہم بھی یہ نوکری کرنا چاہتی ہیں۔

’مجھے بہت اچھا لگا تھا کہ مجھے دیکھ کر بہت سی لڑکیاں یہ نوکری کرنا چاہتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔‘

فرحین کہتی ہیں کہ ملازمت کی وجہ سے پڑھنے کا وقت کم ملتا ہے اور پڑھائی کے ساتھ نوکری اتنا آسان نہیں لیکن سب چیزوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین