مغوی امریکی انجینیئر کی واپسی کے لیے ’مشکل فیصلے‘ کیے: صدر بائیڈن

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کی تصدیق کی کہ 31 ماہ سے قید امریکی انجینیئر کو افغانستان نے رہا کردیا ہے جبکہ طالبان کے مطابق امریکی شہری کو افغان قبائلی رہنما کے بدلے رہا کیا گیا۔

19 ستمبر، 2022 کو کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں طالبان کے ساتھی بشر نورزئی پریس تقریب میں شریک ہیں (اے ایف پی)

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پیر کو بتایا کہ طالبان نے ایک امریکی شہری کو ایک افغان قبائلی رہنما کے بدلے رہا کر دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کی تصدیق کی کہ 31 ماہ سے قید امریکی انجینیئر کو افغانستان نے رہا کردیا ہے۔

امریکی صدر نے ایک بیان میں کہا: ’آج ہم نے مارک فری ریچز کی رہائی کو ممکن بنایا اور وہ جلد ہی گھر لوٹ سکیں گے۔‘ انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ امریکی شہری کی واپسی کے لیے ’مشکل فیصلے‘ کیے گئے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق متقی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکی انجینیئر مارک فری ریچز کو افغان رہنما بشر نورزئی کے بدلے کابل کے ایئر پورٹ پر رہا کیا گیا۔

نورزئی کو امریکہ نے پانچ کروڑ ڈالر مالیت کی ہیروین سمگل کرنے کے الزام میں پکڑا تھا۔

روئٹرز کے مطابق نورزئی کے وکیل نے تردید کی تھی کہ ان کے موکل منشیات فروش تھے۔

انہوں نے زور دیا تھا کہ الزامات مسترد کر دیے جائیں کیوںکہ امریکی حکومت کے حکام نے انہیں ’دھوکے‘ سے اس بات کا یقین دلایا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان کو ہیروئن کی سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ 17 سال سے امریکی جیل میں تھے۔

طالبان حکام کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق قندھار کے ضلع میوند کے نورزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بشر نورزئی طالبان کے سپریم رہنما ملا عمر کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

طالبان حکام کے بقول: ’ان کی رہائی کے لیے کافی عرصے سے کوششیں جاری تھیں، جو آج کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔‘

کیا نورزئی گوانتانا موبے میں تھے؟

یہ بات غیر یقینی ہے کہ رہائی پانے والے نورزئی گوانتاناموبے جیل میں قید تھے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق طالبان حکام نے دعویٰ کیا کہ نورزئی کو بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل میں رکھا گیا، مگر خبر رساں ادارے کے بقول طالبان نے اس کے کوئی ثبوت نہیں دیے۔

نورزئی نے بھی گوانتاناموبے میں اپنے ہونے کے متعلق کچھ نہیں کہا۔

اس حراستی مرکز میں عسکریت پسندوں جن میں القاعدہ کے جنگجو اور طالبان بھی شامل ہیں، 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان، عراق اور دیگر مقامات پر پر امریکی فوج کے ہاتھوں پکڑے گئے مشتبہ افراد کو رکھا گیا۔

امریکہ کا یہ حراستی مرکز جنیوا کنونشن کے تحت قیدیوں کے قانونی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور امریکی حکام کی طرف سے قیدیوں پر تشدد یا ناروا سلوک کے الزامات کی وجہ سے دنیا بھر میں متنازع بن گیا۔

’نئے دور کا آغاز‘

اے پی کے مطابق امیر خان متقی نے نورزئی کے ساتھ پریس کانفرنس میں اس تبادلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ اور طالبان کے تعلقات میں ایک ’نئے دور‘ کا آغاز ہے۔

پیر کو طالبان نے سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں نورزئی کی کابل ہوائی اڈے پر آمد دکھائی گئی جہاں متقی سمیت اعلیٰ طالبان حکام نے ان کا استقبال کیا۔

پریس کانفرنس میں نورزئی نے کابل میں اپنے ’مجاہدین بھائیوں‘ کو، جو طالبان کا حوالہ ہے، دیکھ کران کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں طالبان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔

’مجھے امید ہے کہ یہ تبادلہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان امن کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ ایک امریکی کو رہا کیا گیا تھا اور میں بھی اب آزاد ہوں۔‘

’اپنے ملک میں خیر مقدم‘

وزیر خارجہ امیرخان متقی نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا: ’ماضی میں ہم رہائی پانے والے افغانوں کو بیرون ممالک (قطر) میں خوش آمدید کہتے تھے۔ کیوں کہ یہاں (افغانستان) ایسے لوگ حکومت میں تھے جو افغانوں کو پکڑ کر غیر ملکیوں کے حوالے کر دیتے تھے۔

 ’اب خوشی کا مقام ہے کہ ہم اپنے ملک کے دارالحکومت میں ایک شان دار تقریب میں حاجی بشر کا استقبال کر رہے ہیں۔‘

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگرچہ نورزئی کوئی باضابطہ عہدہ نہیں رکھتے تھے لیکن انہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کو ’ہتھیاروں سمیت بھرپور مدد فراہم کی تھی۔‘

امریکی شہری کون ہیں؟

اے پی کے مطابق افغان وزیر متقی نے کہا کہ رہائی پانے والے مارک فری ریچز بحریہ کے ایک تجربہ کار اور سویلین کنٹریکٹر تھے۔ انہیں 31 جنوری، 2020 کو افغانستان میں اغوا کیا گیا تھا۔

اس سال کے شروع میں نیویارکر میگزین کی طرف سے پوسٹ کی گئی ایک ریکارڈنگ کے مطابق فری ریچز کو آخری بار اس سال جاری کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا جس میں انہوں نے اپنی رہائی کی درخواست کی تھی۔

فری ریچز کی رہائی کی آزادنہ تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی اب تک واشنگٹن نے اس حوالے سے باضابطہ کوئی بیان جاری کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متقی کا مزید کہنا تھا کہ’یہ عمل ہمیں دکھاتا ہے کہ تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔

’میں دونوں فریقین کی ٹیموں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ایسا ہونے کے لیے بہت محنت کی۔‘

امریکی ریاست الینوائے کے شہر لومبارڈ کے رہنے والے فری ریچز کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ طالبان سے وابستہ حقانی نیٹ ورک کے قبضے میں رہے۔

دو صدارتی انتظامیہ کے امریکی حکام نے انہیں امریکہ واپس لانے کی ناکام کوششیں کی تھیں۔

وہ ویڈیو جس میں فری ریچز کو اغوا کے بعد پہلی بار دیکھا گیا اس کے بارے میں متقی کا کہنا تھا کہ یہ گذشتہ نومبر میں ریکارڈ کی گئی۔

مغویوں کی ویڈیوز بعض اوقات اس بات کا ثبوت دینے کے لیے جاری کی جاتی ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔

ان ویڈیوز سے ان کی رہائی کے لیے مذاکرات میں سہولت ہوتی ہے۔

تاہم فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ فری ریچز کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔

جریدے نیویارکر نے کہا کہ اس نے یہ کلپ افغانستان میں ایک نامعلوم شخص سے حاصل کی۔

اس وقت امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے ویڈیو کی صداقت پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

تاہم فری ریچز کی ایک بہن شارلین کاکورا نے ایک بیان میں ویڈیو جاری کرنے پر طالبان کا شکریہ ادا کیا تھا۔

قیدیوں کا تبادلہ جیسے شروع ہوا؟

 گذشتہ سال اگست میں افغانستان میں حکومت بنانے کے بعد سے طالبان نے امریکہ سے فری ریچز کے بدلے نورزئی کی رہائی کا مطالبہ کیا اس امید پر کہ افغانستان میں قید امریکی شہریوں کے ایسے تبادلے ہو چکے ہیں۔ 

تاہم واشنگٹن کی طرف سے قیدیوں کے کسی بھی قسم کے تبادلے کے معاملے میں آگے بڑھنے کے حوالے سے کھل کر بات کرنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیے۔

اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے اس سے افغان رہنما کی رہائی کو حکومت کی’ناقابل مذاکرات بنیادی ترجیحات‘ میں سے ایک قرار دیا تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جنوری میں ایک بیان میں کہا کہ تسلیم کیے جانے کی توقع سے پہلے طالبان کو مارک کو فوری طور پر رہا کر دینا چاہیے۔ مارک کی رہائی پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا