اقوام متحدہ کا طالبان سے خواتین کارکنوں کو ہراساں نہ کرنے کا مطالبہ

یوناما نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ حال ہی میں طالبان اہلکاروں کی جانب سے ان کی خواتین ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ کو اس پر سخت تشویش ہے۔

افغانستان میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہسیاؤ وی لی 25 اکتوبر 2021 کو کابل میں اپنے دفتر میں اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہی ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (UNAMA) نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ایجنسی کی خواتین ملازمین کو ہراساں کرنا فوری طور پر بند کریں جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی کسی خاتون کارکن کو ہراساں یا گرفتار نہیں کیا گیا۔

یوناما نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ حال ہی میں طالبان اہلکاروں کی جانب سے ان کی خواتین ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ کو اس پر سخت تشویش ہے۔

اس اعلان میں ایک حالیہ واقعہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی تین خواتین کارکنوں کو طالبان کے سکیورٹی اہلکاروں نے مختصر عرصے کے لیے گرفتار کیا تھا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

اعلامیے میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ واقعہ افغانستان کے کس علاقے میں پیش آیا اور اس کی وجہ کیا تھی۔

طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ’اقوام متحدہ کی کسی خاتون کارکن کو ہراساں یا گرفتار نہیں کیا گیا‘۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ، انھوں نے قندھار میں خواتین کے ایک گروپ سے معلومات طلب کیں۔‘

یوناما نے کہا کہ اقوام متحدہ کے عملے کو ملک میں گھومنے پھرنے کا حق اور استثنیٰ حاصل ہے اور طالبان کو اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوناما کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں جاری ہوا ہے جب پیرکو افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے خواتین اور لڑکیوں کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اپنی ایک سالہ رپورٹ میں کہا کہ طالبان کی حکومت کے بعد سے افغان خواتین اور لڑکیوں کے شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو دبایا گیا ہے۔

لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں بتایا، ’یہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔‘

ایک بیان میں طالبان نے کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے نمائندے رچرڈ بینیٹ کی رپورٹ ’متعصبانہ اور حقیقت سے بہت دور ہے۔‘

’آج افغانستان میں خواتین کی جان کو کوئی خطرہ نہیں، جنگوں یا چھاپوں میں کوئی افغان خاتون ہلاک نہیں ہوئی اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں سے محروم ہوتی ہے، اب کوئی افغان خواتین کی بے عزتی نہیں کرتا، کسی افغان خاتون کے بچے بے گناہ جیلوں میں نہیں ہیں، افغانستان میں 181 سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں خواتین اور مردوں کے لیے کھلی ہیں، تعلیم کو ملک کے باقی 70 فیصد حصے تک بڑھا دیا گیا ہے، ہزاروں افغان خواتین تعلیم، اعلیٰ تعلیم، صحت عامہ، قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ہوائی اڈے، پولیس، میڈیا، بینک اور دیگر ضروری شعبوں میں کام کر رہی ہیں، ان خواتین کی تعداد جو کام کے نامناسب ماحول کی وجہ سے اب بھی اپنی ملازمتوں میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں، ان کی تنخواہیں گھر پر باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہیں، سینکڑوں غریب خواتین اور مرد جو بھیک مانگنے میں مصروف تھے، سڑکوں سے جمع کیے گئے اور انہیں مناسب اجرت دی گئی،  مختصر یہ کہ افغان پرامن زندگی گزار رہے ہیں اور اب وہ جنگ، عدم تحفظ، ہلاکتوں اور پریشانیوں سے بہت دور ہیں۔‘

طالبان حکام نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ اسے دنیا بھر کے لوگوں کی رائے اور عقائد کا احترام کرنا چاہیے اور بعض ممالک کے مزاج کے برابر کوئی موقف اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین