وادی تیراہ سے دوبارہ نقل مکانی: حقائق کیا ہیں؟

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن ردالفساد انٹیلیجنس کی بنیادوں پر 2017 سے جاری ہے اور جہاں بھی کوئی خطرہ موجود ہوتا ہے اس کا فوراً تدارک کیا جاتا ہے۔ 

تعلیم دان عامر آفریدی نے نقل مکانی کرنے والے مقامی قبائلی کی تصاویر ٹوئٹر پر شیئر کی ہیں۔

افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے وادی تیراہ میں قبائلی سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر تیراہ کے چار دیہات مکمل خالی ہوچکے ہیں تاہم عسکری ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ تیراہ میں نقل مکانی سے متعلق خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔

نو ستمبر سے ضلع خیبر سے خبریں آ رہی ہیں کہ فوجی حکام نے تیراہ کے گاؤں بشمول سندانا، جڑوبی، سنڈاپال اور درے نغری کے مکینوں کو تین دن میں گھر خالی کرنے کی ہدایات دی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ان علاقوں کو خالی کروانے کا مقصد شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی صورت میں نقصانات سے بچنا ہے۔

عسکری ذرائع کے مطابق تیراہ سے رہائشیوں سے متعلق نقل مکانی کی تمام اطلاعات محض قیاس آرائیاں ہیں، اور ان میں کسی قسم کی صداقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وادی تیراہ کے رہائشی اپنے علاقے میں خوشحال زندگیاں گزار رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن ردالفساد انٹیلیجنس کی بنیادوں پر 2017 سے جاری ہے اور جہاں بھی کوئی خطرہ موجود ہوتا ہے اس کا فوراً تدارک کیا جاتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ تمام سکیورٹی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں، قبائلی عوام ریاست کے ساتھ ہر قسم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ 

تاہم وادی تیراہ سے مقامی آبادی کے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف کوچ کرنے کی اطلاعات سوشل میڈیا پر پیغامات اور تصاویر کی شکل میں ایک مرتبہ پھر نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ 

کئی قبائلی اور دوسرے پختون سماجی کارکنوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وادی تیراہ سے نقل مکانی کی تصاویر شیئر کی ہیں۔

سماجی کارکن عامر آفریدی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں افسوس کا اظہار کیا کہ 15 سال تک پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی اور بے بسی کی زندگی گزرانے کے بعد چند ماہ قبل ہی پہلے گھروں کو واپس آنے والوں ایک مرتبہ پھر علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں۔

سماجی کارکن عامر آفریدی کے مطابق علاقے سے کوچ کرنے والوں میں قوم زخہ خیل، کمر خیل، اکاخیل اور سپاہ شامل ہیں۔

’ہماری مقامی تنظیموں کے مطابق اب تک 139 گھرانے نقل مکانی کرکے علاقے خالی کرچکے ہیں۔‘

عامر آفریدی نے بتایا کہ صرف ان لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم تھا، جن کو آپریشن سے نقصان پہنچ سکتا تھا۔

’باغ حرم جہاں سے چھیانوے خاندان نکل چکے ہیں ان کو ایسے کوئی احکامات نہیں تھے، پھر بھی وہ خوف کے سبب سامان لے کر نکل گئے تاکہ ماضی کی طرح حالات نہ پیش آئیں۔‘

ضلع خیبر میں ویلیج کونسل کے چیئرمین عبدالمتین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تیراہ کے چار دیہات - جڑوبی، سنڈاپال، درے نغری اور باغ حرم - کے تمام مکین کوچ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے گاؤں ساؤخ گاڑے میں حکومت کی جانب سے خیموں کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کیمپ میں رجسٹرڈ 54 آئی ڈی پیز منتقل ہوچکے ہیں جبکہ 61 خاندان تیراہ کے گاؤں درس جماعت کو نقل مکانی کرچکے ہیں، جہاں وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ عارضی قیام کیے ہوئے ہیں۔‘

عبدالمتین کے مطابق ان دیہات کو چھ ستمبر کو اطلاع ملی تھی کہ گیارہ تاریخ تک مکان خالی کر دیں۔

’علاقہ مکینوں کو بتایا گیا کہ ان کے لیے خیموں کا بندوبست کیا جائے گا، جہاں انہیں خوراک اور دوسری ضروریات زندگی فراہم کی جائیں گی جس پر لوگ رضامند ہوئے۔‘

تحصیل باڑہ کے سماجی کارکن محمد ابراہیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تیراہ کے ان دیہات کے مکینوں کو پہلے صرف تین دن کی مہلت تھی جس میں بعدازاں توسیع کی گئی۔

’لوگوں کے پاس کوئی سہولت نہیں تھی جبکہ حکومت یا فوج کی جانب سے بھی ان کے لیے کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ کچھ لوگوں کی مکئی کی فصل کاٹے بغیر رہ گئی۔ یہ سب غریب لوگ ہیں، جنہوں نے پائی پائی جوڑ کر مکانوں کی ازسر نو تعمیر کی تھی۔‘

تیراہ 

پاکستان اور افغانستان کو ملانے والا علاقہ ضلع خیبر جو کہ 2018 سے قبل خیبر ایجنسی کہلاتا تھا چھٹی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی نو لاکھ چھیاسی ہزار سے زائد ہے جب کہ صرف تیراہ کی کُل آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے۔ 

ضلع خیبر میں آفریدی قبیلے کی آٹھ قومیں بستی ہیں، جن میں سپاہ، قمبر خیل، کمر خیل، ملک دین خیل، ذخہ خیل، اکاخیل، کوکی خیل اور آدم خیل شامل ہیں۔ 

تیراہ میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، آفریدی قبیلے کی تمام شاخیں نمائندگی کرتی ہیں۔  

وادی تیراہ نوے کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ایک سرسبز و شاداب علاقہ ہے، جہاں گھنے جنگلات، پہاڑ، چشمے، ندیاں، سبزہ، کھیت اور لالازاروں کی موجودگی ہی اس کی کشش کا واحد سبب نہیں بلکہ اس علاقے کی دفاعی اہمیت بھی کافی زیادہ ہے۔اور یہیں سے شمال کی جانب سرحد پر پاکستانی فوج کے لیے سپلائی بھی جاتی رہی ہے۔

تیراہ کی سرحدیں مغرب میں ضلع خیبر اور افغانستان کاصوبہ ننگرہار، جنوب میں ضلع اورکزئی، جنوب مغرب میں ضلع کُرم، مشرق میں پشاور اور شمال میں ضلع مہمند سے ملتی ہیں۔ 

تیراہ کی اندرون ملک اور ملک سے باہر مقبولیت کی ایک وجہ یہاں بھنگ کی بڑے پیمانے پر کاشت ہے، جس سے چرس بنا کر کسان غیرقانونی طور پر فروخت کرتے آرہے ہیں۔ اگرچہ ضلع اورکزئی اور ضلع کرم کے بعض علاقوں میں بھی بھنگ کی کاشت ہوتی ہے تاہم پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے مطابق سب سے بہترین فصل تیراہ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ 

فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق تینوں اضلاع سے سالانہ تقریباً پچاس لاکھ کلوگرام تک بھنگ حاصل ہوسکتی ہے، جس سے سی بی ڈی تیل کشید کرکے لاکھوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔

وادی تیراہ کی ٹھنڈی آب و ہوا، پہاڑی اور رتیلی زمین نہ صرف بھنگ بلکہ دوسرے قیمتی ترین پودے زعفران کی کاشت کے لیے بھی موزوں ترین ہے، جس کا2017 میں کامیاب تجربہ بھی کیا گیا تھا۔

تقریباً سات ہزار فٹ بلندی پر واقع اس علاقے میں کئی پہاڑی اور خودرو پھل جیسے کہ خوبانی، اخروٹ، منزختہ (رس بیری)، گرگورے (بلیک بیری)،آلوچہ وغیرہ اگتے ہیں۔

2007 کے بعد سے یہ علاقہ مسلسل شدت پسندی کی زد میں رہا ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے نمٹنے والےادارے نے 2013 کی رپورٹ میں یہ تعداد 40 ہزار بتائی تھی۔ 

2007 کے بعد سے اس علاقےمیں مختلف کالعدم تنظیمیں انصار الاسلام، لشکر اسلام، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور امن تنظیم توحید الاسلام متحرک رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر علاقے میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کی اطلاعات آرہی ہیں۔ جن کے بارے میں علاقہ مکین محو سوال ہیں کہ آخر باڑ لگنے اور سخت پہرے کے باوجود مسلح افراد ان علاقوں تک کیسے پہنچ رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان