آڈیو لیکس: وضاحت کریں، سیاست نہیں

2021 میں منظور کردہ پاکستان کی قومی سائبر سکیورٹی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون سازی پاکستان کے ڈیجیٹل اثاثوں کو موثر قانونی تحفظ فراہم نہیں کرتی۔

3 فروری 2012 کو لی گئی اس تصویر میں یونانی وزارت انصاف کی ہیک شدہ ویب سائٹ کی تصویر دکھائی گئی ہے (اے ایف پی)

یہ واقعی پاکستان کے وجود کے لیے انتہائی سنگین مسئلہ ہے، ماضی کے کئی بڑے بڑے سانحات سے بھی بڑھ کر۔ وزیر اعظم ہاؤس جو ہر اعتبار سے ملک کی انتہائی حساس مقامات میں سے ایک ہے، ملک کا محفوظ ترین مقام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن جہاں ملک کے دوسرے نظام زوال کا شکار ہیں، وہاں ڈیجیٹل سکیورٹی میں بھی ملک کا سکیورٹی انتظام ناکام ثابت ہوا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا تازہ آڈیو لیک بظاہر اس وقت کا ہے جب شاید وہ وزیر اعظم تھے۔ اس آڈیو میں بظاہر ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی گفتگو بھی شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تازہ آڈیو کی ریکارڈنگ شاید اس سال فروری یا مارچ کی ہو سکتی ہے۔ بات یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ حکومت میں تبدیلی کے بعد بھی یہ خفیہ آڈیو ریکارڈنگز جاری رہیں۔ اس کی مثال موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی وزیر اعظم ہاؤس میں گفتگو کی ریکارڈنگ ہے۔

اب تک کی آڈیوز سے فروی تا مارچ سے اب تک کے وقت کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ اندازہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ آیا یہ سلسلہ کب سے جاری تھا اور کیا اب بھی جاری ہے یا ختم ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم ہاؤس کے سکیورٹی کے اہلکار تو اس کوتاہی پر یقینا قابل گرفت ہونے چاہییں لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا یہ وزیر اعظم ہاؤس میں رکھے کسی بگ سے ریکارڈنگ کی گئی ہیں یا کسی کا موبائل فون اس میں کام آیا ہے۔ خود وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ اور دیگر وزرا اور پارٹی رہنما سکیورٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موبائل ساتھ لے کر جاتے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری جو شہباز شریف کی آڈیو سامنے آنے پر بغلیں بجا رہے تھے، اب خود جواب دیں کہ ان کے دور میں شروع ہونے والی اس ریکارڈنگ کا انہوں نے کیا کیا۔ بظاہر تو وہ اس سے لاعلم ہی دکھائی دیتے ہیں اور اس کا شاید مستقبل میں بھی کبھی اعتراف نہ کریں۔

انہوں نے اپنی لاعلمی پر تو بات نہیں کی لیکن سائفر پر اپنے موقف کو محض دہرایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی لیکس سے صرف یہ کنفرم ہوتا ہے کہ امریکی مراسلہ وزیر اعظم سے چھپانے کی کوشش کی گئی۔

اس سے ایک دن قبل انہوں نے ٹویٹ میں تشویش تو ظاہر کی اور محفوظ بنانے والوں کی صلاحیت پر سوال اٹھایا لیکن اور کچھ نہیں کیا۔ ’جن محفوظ ہاتھوں میں ہمارا مستقبل تھا، ان محفوظ ہاتھوں کا مستقبل ہیکرز کے ہاتھوں میں ہے!‘

فواد چوہدری تو اس سکیورٹی لیپس کا ملبہ ہیکرز پر ڈال رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ واقعی یہ ان کی کارستانی تھی یا نہیں۔ ابھی وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کسی کی جانب سے تمام ریکارڈنگز کرنے کی کوشش کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف کی ریکارڈنگ بظاہر تازہ ہے تو انہیں تو کم از کم یاد ہونا چاہیے کہ اس گفتگو کے وقت ان کے ساتھ آیا کوئی دوسرا شخص کمرے میں موجود تھا یا نہیں۔ عمران خان کو بھی تھوڑا اس بارے میں یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس چھوٹی سے وضاحت سے کم از کم یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ ریکارڈنگ کمرے میں موجود کسی نے کی ہے یا ریموٹلی ایسا کیا گیا ہے۔  

اب وزیر اعظم شبہاز شریف نے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ آج قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس میں اس سنگین ایشو پر بات ہو گی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ان تحقیقات کے نتائج سے عوام کو بھی مکمل طور پر آگاہ کیا جائے گا اور کسی کو بچانے کی کوشش یا کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج کل کے ڈیجیٹل دور میں معلومات ہی سب سے مہنگا اثاثہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو معلومات کی نوآبادیات کے خطرے کا سامنا ہے۔ عام شہریوں کا ڈیٹا مناسب رضامندی یا توثیق کے بغیر تیسرے فریق کو فروخت کیا جا سکتا ہے، یہاں تو بات ملک کے وزرائے اعظم کی ہو رہی ہے۔

دوست اور دشمن سب اسی تاک میں ہوتے ہیں کہ کیسے حکومتوں کی اندر کی سوچ اور پالیسی کو بھانپ کر ان کو وقت پر مناسب تیاری کی جا سکے۔ سوچیں اگر ان آڈیوز میں سیاست کے علاوہ ملکی خفیہ معلومات جیسے کہ جوہری اثاثوں کے بارے میں بھی بات چیت ریکارڈ ہوئی اور کسی دوسرے ملک کے ہاتھ لگ گئیں تو ہم کتنے خطرے میں ہیں؟

پاکستان کی قومی سائبر سکیورٹی پالیسی میں، جو 2021 میں منظور کی گئی کہا گیا ہے کہ موجودہ قانون سازی پاکستان کے ڈیجیٹل اثاثوں کو موثر قانونی تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ ’سائبر سکیورٹی سے متعلق موجودہ قانون سازی ایک مناسب میکانزم فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور اسے اس طرح سے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک مناسب قانون سازی کا ڈھانچہ اور عمل درآمد کا مکانزم لازمی ہے۔

اس رپورٹ نے سال پہلے خطرات اور حملوں سے موثر طریقے سے بچنے کے لیے رسپانس ٹیموں (سی ای آر ٹیز) کے ذریعے مربوط کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی ٹیموں کی عدم موجودگی اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ایک بڑا خطرہ ہے۔ معلوم نہیں اس پر رپورٹ پر جاری ہونے کے بعد کوئی توجہ کبھی کسی نے دی یا نہیں۔ آڈیو ریکارڈنگز سے تو نہیں لگتا ہے ایسا اس عرصے سے دوران کچھ ہوا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ نہ پہلی آڈیو لیکس ہیں اور نہ آخری ہاں ملکی سکیورٹی کے اعتبار سے خطرناک سب سے زیادہ ہیں۔ کبھی کسی جج کی اور کبھی کسی سیاست دان کی آڈیوز سامنے آتی رہی ہیں لیکن کس نے کی یا کون ان کے پیچھے ہے جواب کبھی نہیں ملے۔ بس آ جاتی ہیں۔

ابھی جو بدقسمتی سے ہو رہا ہے وہ اصل مسئلے کی نشاندہی کی بجائے اس پر ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر سیاست ہی ہو رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی