اسرائیلی سائبر جارحیت کے ہائی ٹیک سہولت کار

فلسطینیوں کے فیس بک پر پوسٹ کردہ لوازمہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عمومی سینسرشپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس جیسی انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیمیں ان اسرائیلی اقدامات کی شدید ناقد دکھائی دیتی ہیں۔

مغربی کنارے کے شہر نابلس کے قریب کیمپ میں دراندازی کے دوسرے دن 17 دسمبر 2003 کو ایک اسرائیلی فوجی بلتا کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں ایک مسجد کے اندر سے ایک کمپیوٹر ضبط کر رہا ہے(فائل تصویر: اے ایف پی)

یہ تحریر مصنف کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے

 

فلسطین آج بھی نئے اسرائیلی اسلحہ، ہجوم کنڑول اور جاسوسی کے ہائی ٹیک آلات کی جانچ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔

قصہ پارینہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی فلسطین دشمنی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی، تاہم ان کی سیاسی زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ انھوں نے صہیونی پارلیمنٹ میں 2016 کو ایک ایسا مسودہ قانون مسترد کروانے میں اہم کردار کیا جو سائبر سپیس میں پوسٹ کیے جانے والے فسلطینی لوازمہ پر ان کی حکومت کے مکمل کنڑول کی راہ ہموار کرنے جا رہا تھا۔ وہ ایسا کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟

نتن یاہو کے مزاج شناس تجزیہ کاروں نے کنیسٹ کی تاریخ کے اس انوکھے واقعے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مجوزہ قانون کی روشنی میں فلسطینیوں کے آن لائن بیانیے کی ترویج روکنے میں مدد دینے والے قانون سے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اس لیے خوفزدہ تھے کہ مبادا ان کے دشمن اس کا سہارا لے کر فلسطینیوں کے خلاف نتن یاہو کی تحریض اور بیانیہ پر پابندی ہی نہ لگوا دیں۔

متنازع مسودہ قانون لیکوڈ پارٹی کے سیاسی حریف جدعون ساعر نے پیش کیا تھا، جو نتن یاہو حکومت کے خاتمے کے بعد ان دنوں نفتالی بینیٹ کی کابینہ میں وزیر قانون  اور اسرائیل کے نائب وزیر اعظم کے منصب پر فائر ہیں۔ نفتالی بینیٹ نے مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیوں میں بگ ٹٹ توسیع کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔

جدعون ساعر کی کوششوں سے منظور کرائے گئے قانون کو بنیاد بنا کر آج اسرائیل کے فوجی تسلط کو ڈیجیٹل میدان تک پھیلایا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کے ڈیجیٹل حقوق کے ضامن الائنس کے مطابق ’فیس بک لا‘ کے نام بننے والے قانون کے بعد اسرائیلی عدالتیں با اختیار بن گئی ہیں۔ وہ آن لائن پوسٹ کردہ لوازمہ کو اشتعال انگیز اور ملکی سلامتی کے خلاف قرار دے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹانے کا حکم جاری کر سکتی ہیں۔

ساعر مسودہ قانون کی 2016 میں منظوری کے بعد سے فلسطینیوں کا تیارکردہ آن لائن لوازمہ اسرائیل کی کڑی سینسرشپ کا سامنا کر رہا ہے۔ اسرائیل کے نام نہاد سائبر یونٹس سوشل میڈیا سے فلسطینیوں کی 20 ہزار پوسٹوں کو صرف ایک ماہ کی مدت کے دوران ہٹوانے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ آئے روز اسرائیل کے سائبر یونٹس اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے درمیان تعلق مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

فیس بک کی سطح پر اسرائیل کا یہ تعلق تو پہلے ہی انتہائی مثالی رہا ہے۔ فلسطینیوں کے فیس بک پر پوسٹ کردہ لوازمہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عمومی سینسرشپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس جیسی انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیمیں ان اسرائیلی اقدامات کی شدید ناقد دکھائی دیتی ہیں۔

اسرائیلی حکومت یہ تمام کارروائیاں فیس بک کے ساتھ 2016 میں طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں کر رہی ہے۔ اس معاہدے کا مقصد سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو پرتشدد کارروائیوں پر اکسانے سے باز رکھنا ہے۔

اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف اقدام کے لیے کوئی جواز درکار نہیں ہوتا۔ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی مذمت ہو، یا پھر صہیونی ریاست کے نسلی امتیاز پر رد وکد؛ کچھ نہ بھی ہو تو فلسطینیوں کے حق میں شاعری یا گیت بھی مذکورہ قانون کو حرکت میں لانے کے لیے کافی دلیل ہے۔

ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف روا رکھے جانے والے اسرائیلی سلوک کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تل ابیب حکومت کا ’فیس بک لا‘ فلسطینیوں کے خلاف سائبر سپیس میں عرصہ حیات تنگ کرنے کی ایک اور مذموم کوشش ہے۔

’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘ کے مصداق فیس بک کو فلسطینیوں پر کامیابی سے عرصہ حیات تنگ کرتا دیکھ کر عالمی سرچ انجن گوگل اور ایمازون نے انسان دشمنی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالنے کی منصوبہ بندی شروع کی تو اس کی بھنک عالمی ٹکنالوجی کمپنیوں میں خدمات سرانجام دینے والے باضمیر اہلکاروں تک جا پہنچی۔

اس میں دو رائیں نہیں کہ گوگل اور ایمازون کی کامیابی کا سہرا بیک اینڈ پر خاموشی سے انتہائی پیچیدہ فنی خدمات سرانجام دینے والے ایسے ہی ہزاروں ’گمنام سپاہیوں‘ کے سر ہے۔

شومئی قسمت کہ گوگل میں خدمات سرانجام دینے والے 500 اہم اہلکاروں نے ٹیکنالوجی کی ان دو بڑی کمپنیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ کھیلی جانے والے خون کی ہولی کا پردہ چاک کر دیا۔

وسل بلورر کا کردار ادا کرنے والے ان فنی ماہرین نے انتظامیہ کو ایک خط کے ذریعے ذاتی تحفظ سے متعلق اپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’گوگل کی طرف سے اسرائیلی حکومت اور فوج کو فراہم کی جانے والی فنی معاونت کی وجہ سے انہیں ہر لمحہ جاں لیوا ردعمل کا خوف لاحق رہتا ہے۔‘

عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے اسرائیل کو مذکورہ معاونت ’نمبس‘ نامی منصوبے کے تحت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کا اعلان اگرچہ 2018 میں ہوا، تاہم اسے گذشتہ برس مئی کے دوران اس وقت روبہ عمل لایا گیا جب غزہ کی پٹی پر اسرائیلی آتش وآہن کی بارش جاری تھی۔ اس جنگ میں 250 کے قریب فلسطینی لقمہ اجل بنے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے۔

اعلی انتظامیہ کو خط لکھنے والے گوگل ملازمین سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے ہلاکت خیر فنی معاونت کے معاہدے پر دستخط سے کمپنی [گوگل] فلسطین پر اسرائیلی قبضے میں براہ راست شریک بن رہی ہے۔

انہیں اس امر پر تشویش لاحق ہے کہ گوگل کے ساتھ کامیاب معاہدے سے شہہ پا کر ایمازون، مائیکرو سافٹ اور دوسری بڑی ٹکنالوجی کمپنیوں نے امریکی فوج، امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں سے معاہدے کیے ہیں۔

عرب مرکز برائے سوشل میڈیا ترقی کی گذشتہ برس جاری کردہ رپورٹ میں ان اسرائیلی اقدامات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جنہیں تل ابیب فلسطینیوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتا ہے۔

’ہیش ٹیگ فلسطین 2021‘ کے عنوان سے سامنے آنے والے رپورٹ میں جاسوسی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل عوامی مقامات پر ایسے کیمرے نصب کر رہا ہے جن سے فلسطینیوں کی بآسانی شناخت کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اقدام نجی معلومات کے تحفظ کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے غرب اردن میں اسرائیلی چوکیوں پر چہرہ شناخت کے لیے کیمروں کا استمعال کیا جا رہا ہے۔

چند مہینے قبل پیگاسس نامی جاسوسی سافٹ ویئر عالمی ذرائع ابلاغ کی شہہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا۔ اسرائیلی ساختہ پیگاسس کو متعدد اعلیٰ شخصیات اور فلسطینیوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

فلسطین آج بھی نئے اسرائیلی اسلحہ، ہجوم کنڑول اور جاسوسی کے ہائی ٹیک جدید آلات کی جانچ اور انسانی حقوق کی نت نئی خلاف خلاف ورزیوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔

انفارمیشن سپر ہائی وے کی برکت سے عالمی گاؤں اور اس میں صم، بکم وعمی کی تصویر بنی انسانیت کو سلام پیش کرنے کو دل چاہتا ہے کہ جن کی بے حسی سے حوصلہ پا کر اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اپنی نسلی امتیاز کی پالیسی پر بلا روک عمل کر رہا ہے۔

اب اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کو ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہونے سے روکنے کا وقت آ چکا ہے۔ جاسوسی کے صہیونی ہتھکنڈوں کو اگر ایسے ہی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جاتا رہا تو آگے چل کر چہرہ شناسی کی یہ  ٹیکنالوجی ہمارے پبلک مقامات کی زیبت بھی سکتی ہے۔۔۔۔ الحفیظ الامان۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر