فلسطین میں کشیدگی اور کمزور اسرائیلی حکومت

’سیف القدس‘ سے لگنے والے چرکے کے بعد مغرب اور خطے میں اسرائیل کے ’نئے دوستوں‘ کی خواہش ہے کہ 1443ھ کا رمضان، مقبوضہ بیت المقدس میں کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر خیر سلامتی سے گزر جائے۔

ایک فلسطینی خاتون آٹھ اگست 2015 کو قرآن مجید تھامے مسجدِ اقصی کے احاطے میں  (تصویر: اے ایف پی فائل)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کیجیے

 

مقبوضہ بیت المقدس میں ہمہ وقت کشیدہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے اسرائیل نے اگرچہ اپنے تئیں غیر معمولی اقدامات کر رکھے ہیں، تاہم ایسی جھڑپوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے کہ جو آگے چل کر بھرپور انتفاضہ (تحریک جہاد) یا پھر بڑے پیمانے پر تصادم میں بدل جائے اور جس کا حتمی نتیجہ نازک دھاگے سے لٹکی اسرائیلی حکومت کے خاتمے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

رمضان المبارک اور یہودیوں کی ’عید فصح‘ یا  Passoverکی ایک ساتھ آمد کے موقع پر پیدا ہونے والی دھماکہ خیز صورت حال کی وارننگز کئی ماہ پہلے سے دی جا رہی تھیں۔

دائیں بازو کی نمائندہ صہیونی تنظیموں کے ارکان بیت المقدس میں کشیدگی کو بڑھاوا دے کر زمینی صورت حال کو اپنے حق میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودیوں کی جانب سے ذبیحہ کے اعلانات سب سے زیادہ تشویش ناک ہیں۔

گذشتہ برس (2021 مئی) رمضان کے دوران غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی نمایاں کامیابی صہیونی ریاست کی سیاسی اور فوجی قیادت کے لیے سوہان روح بنی رہی۔ مزاحمت کاروں کی اس کامیابی سے بیت المقدس سے متعلق اسرائیل کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

عرب دنیا سے سفارتی تعلقات بھی تل ابیب کو ’سیف القدس‘ سے پہنچنے والی زک مٹانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ غزہ پر 12 روزہ ہلاکت خیز جنگ نے عالمی سطح پر اسرائیل کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ اسی جنگ کے تناظر میں اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کی پینگیں بڑھانے والی فلسطینی اتھارٹی کے منہ پر ملی کالک آج تک نہیں دھل سکی۔

عرب دنیا میں اسرائیل کے نئے سفارتی دوستوں، امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ رواں برس رمضان کا مہینہ مزاحمت کاروں (بالخصوص غزہ) کے ساتھ کسی بڑی فوجی کارروائی میں سینگ پھنسائے بغیر گزارا جائے۔

روس یوکرین جنگ کے تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید پر مشتمل سہ فریقی سربراہی کانفرنس کے انعقاد پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

رواں برس 22 مارچ کو ہونے والی اس سربراہی کانفرنس کا ایجنڈا ایران سے مقابلہ اور روس یوکرین جنگ کے تناظر میں خوراک، توانائی اور سکیورٹی کے حوالے سے پیدا ہونے والے صورت حال تھی، تاہم مذاکرات کا دوسرا اہم نکتہ رمضان المبارک کے دوران بیت المقدس سمیت فلسطین کے طول وعرض میں استحکام برقرار رکھنا تھا۔

واضح رہے سہ فریقی سربراہی کانفرنس کا انعقاد رمضان کی آمد سے دس روز پہلے ہوا۔ کانفرنس میں شریک قائدین کو فلسطین میں پیدا ہونے والی دھماکہ خیز صورت حال کا مکمل ادراک اور احساس تھا۔

سہ فریقی سمٹ (امارات، اسرائیل اور مصر) سے چند دن بعد اسرائیل کے علاقے نقب میں امریکہ، مصر، امارات، مراکش اور بحرین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ 26-27 مارچ کو ہونے والے اجلاس کا محور بھی یہی بات تھی کہ رمضان اور عید فصح بخیریت گزر جائے۔

یہی موضوع 29 مارچ کو اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹنز اور اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں زیر بحث آیا اور اگلے ہی روز اردن کے بادشاہ سے اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کی ملاقات میں یہی نکتہ زیر بحث رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سربراہی اجلاس اور اس کے جلو میں صہیونی ریاست سے تعلقات معمول پر لانے کے خواہاں مغربی اور عرب ملکوں کے کارپردازوں کی یہ خواہش اور تشویش اظہر من الشمس ہے کہ کسی طرح 1443ھ کا رمضان، بیت المقدس میں کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر خیر سلامتی سے بیت جائے۔

دوسری اہم بات جسے بھلایا نہیں جا سکتا وہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی آنکھیں اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ اور اس کے متوقع نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔

امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی خم ٹھونک پر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ممالک روس کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ منظم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، ایسے میں وہ اپنی توانائی فلسطین کے قضیے میں نہیں گنوانا چاہتے۔

ادھر مغربی دنیا کو اپنی منافقانہ پالیسی بے نقاب ہونے کا خدشہ بھی لاحق ہے کیونکہ اس وقت یوکرین کو روس کو دنیا کے سامنے مزاحمت اور جدوجہد کا نمونہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

آزاد دنیا کے باضمیر حلقے سے سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ جذبات میں یہی ابال فلسطین میں اسرائیلی مظالم دیکھ نہیں کیوں نہیں آتا؟ آزاد ملک (یوکرین) پر چڑھائی کی پاداش میں ماسکو کو دنیا بھر میں دیوار سے لگانے کی کوششں اور اقتصادی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

کیا فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت مغربی دنیا سے ایسی ہی پابندیوں کا تقاضہ نہیں کرتی؟ کیا عالمی ذرائع ابلاغ، بالخصوص سوشل میڈیا، بولڈ نیوز کوریج کی ایسی ’پنچ تارہ لگژری‘ کی اجازت فلسطین میں اسرائیلی مظالم بے نقاب کرنے کے لیے دیں گے؟

امریکہ اور یورپ کو روسی گیس، تیل اور توانائی کے متبادل ذرائع فراہم کرنے کی خاطر اس بات کی ضرورت ہے کہ عرب ماحول کو دنیا سے سامنے سازگار بنا کر پیش کیا جائے کیونکہ عرب خطہ ہی ان ذرائع کا بڑا متبادل ہے۔

رمضان سے پہلے بئر السبع، الخضیرہ اور بنی براک میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی ہلاکت خیز کارروائیوں نے اسرائیلی سکیورٹی کے چھکے چھڑا دیے جبکہ چوتھی ہلاکت خیز کارروائی تل ابیب میں رمضان کے پہلے ہفتے میں ہوئی۔

ان کارروائیوں نے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کو عجیب مخمصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہائی الرٹ کے باوجود اسرائیلی جنگی مشین کو سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ مزاحمت کاروں کی ان کارروائیوں کا جواب کیسے دیں؟

مذکورہ بالا کارروائیوں کا محرک بہ قول اسرائیلی حکام ’مذہبی جذبہ‘ دکھائی دیتا ہے، تاہم انہیں روبعمل لانے والوں کا تعلق مزاحمت کے دھارے میں شامل کسی نمایاں تنظیم سے نہیں، جس کی وجہ سے اسرائیل کو بدلہ لینے میں انتہائی مشکل پیش آ رہی ہے۔

اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں کشیدگی کو بڑھاوا، یا پھر بیت المقدس اور غرب اردن میں یہودی آبادکاروں کو فلسطینیوں کے خلاف کھل کر کھیلنے کا موقع دینا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟

تل ابیب نے اس لیے رمضان سے پہلے ہی نئے عرب دوستوں اور امریکہ کے تعاون سے اشتعال انگیز کارروائی سے گریز کی پالیسی پر کام شروع کر دیا۔

ادھر یہ حقیقت بھی تل ابیب کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی صہیونی انتہا پسندوں کی حکومتی صفوں میں موجودگی کسی بھی وقت اسرائیلی حکومت کا شیرازہ بکھیر سکتی ہے۔

نیز غزہ پر حملہ یا پھر مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی کوشش اسرائیل کی اتحادی حکومت میں شامل عرب سیاسی جماعت کو تعاون ختم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ان حالات نے اسرائیلی حکومت کی قوت فیصلہ کو انتہائی نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔

آبادکاروں کی نظر میں اپنی ساکھ بچانے اور ’سب اچھا ہے‘ کا تاثر دینے کی خاطر تل ابیب نے رمضان کے دوران پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات کی۔

اگلے مرحلے پر 1948 میں اسرائیلی قبضے میں جانے والے گرین لائن کے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کو مسلح کرنے کے ساتھ نئی یہودی کالونیاں بنانے کے لیے ٹینڈر جاری کیے جانے لگے۔ یہودی بستیوں میں قائم او پی پوسٹوں پر لگائے برقی قمقموں کو بجلی فراہم کی جانے لگی اور سب سے بڑھ کر مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کی در اندازی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔

تاہم جب یہودی جتھوں نے مسجد اقصیٰ میں ذبیحہ کے اعلانات کیے تو اس پر غزہ کی پٹی سے مزاحمتی قوتوں نے اس اشتعال انگیز اور ناپاک جسارت کو بزور بازو روکنے کی وارننگ دی جس پر صہیونی قیادت کے کان کھڑے ہو گئے۔

عوامی بیداری اور اسرائیل کے خلاف نئی جنگ کی دھمکیوں کے بعد اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں ذبیحہ کے خواہش مند انتہا پسندوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حکومت نے اس مہم کے روح رواں کو مقبوضہ بیت القمدس کے قدیمی شہر سے مئی کے وسط تک بے دخل کر دیا۔

وزیر اعظم نفتالی بینٹ کی جماعت ’یمینہ‘ سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی کنیسٹ کے رکن ادیت سیلمان کے چھ اپریل کو استعفے کے بعد حکومت کسی بھی لمحے پارلیمانی اکثریت کھو کر قصہ پارینہ بن سکتی ہے۔

ایک اور رکن کنیسٹ نیر اورباخ کی یمینہ پارٹی سے علیحدگی کی دھمکی نے نفتالی کے اقتدار کی کشتی کو مزید خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔

رمضان المبارک کے بعد مئی میں کنیسٹ کے دوبارہ اجلاس کے موقع پر اعتماد کے ووٹ کی کارروائی کے دوران حکومت کا صحیح امتحان ہو گا اور سیاسی پنڈٹ سمجھتے ہیں کہ وہاں بھی پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیابی جیسی تاریخ دہرائے جانے کا قوی امکان ہے۔

اسرائیلی کی اتحادی حکومت میں شامل اہم اسٹیک ہولڈرز نفتالی بینٹ کو گھر بھجوانے کے حق میں نہیں، وہ موجودہ نازک صورت حال سے نکلنے کی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔

نیتن یاہو کی اقتدار میں عدم واپسی پر اسرائیلی کنیسٹ میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیل میں مانگے تانگے کی اتحادی حکومت کے سر پر خاتمے کی تلوار مسلسل لٹکتی رہے گی اور یہی مزاحمت کاروں کی اصل کامیابی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ