ایران میں معروف شخصیات، میڈیا کے خلاف کارروائی

تہران کے صوبائی گورنر محسن منصوری نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا: ’ہم ان تمام معروف شخصیات کے خلاف کارروائی کریں گے جنہوں نے فسادات کے شعلوں کو ہوا دی ہے۔‘

تہران، 19 ستمبر، 2022: اے ایف پی کو موصول اس تصویر میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے دوران شہری پولیس کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں مہسا امینی کی گرفتاری کے بعد حراست میں موت پر غم و غصے کے باعث مظاہروں کی بڑھتی ہوئی لہر کے بعد ایرانی حکومت نے ملک کی معروف شخصیات اور صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔

ایران میں فلم سازوں، کھلاڑیوں، موسیقاروں اور اداکاروں نے ملک بھر میں خواتین کی قیادت میں جاری مظاہروں کی حمایت کی ہے۔

ایران کی قومی فٹ بال ٹیم نے ویانا میں سینیگال کے خلاف میچ سے قبل قومی ترانے میں سیاہ ٹریک سوٹ پہن کر شرکت کی جس کو احتجاج کی حمایت کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔

ایسنا نیوز ایجنسی کے مطابق تہران کے صوبائی گورنر محسن منصوری نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں کہا: ’ہم ان تمام معروف شخصیات کے خلاف کارروائی کریں گے جنہوں نے فسادات کے شعلوں کو ہوا دی ہے۔‘

ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے بھی اسی طرح کا الزام لگایا کہ ’جو لوگ (انقلابی) نظام کی مدد کی بدولت مشہور ہوئے وہ مشکل وقت میں دشمن کا ساتھ دیتے ہیں۔‘

یہ تازہ ترین انتباہ ایران بھر میں تقریباً دو ہفتوں سے جاری مظاہروں اور کریک ڈاؤن کے بعد سامنے آیا ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی فورسز نے مظاہرین اور ان کی حمایت کرنے والوں کو ’بے رحمانہ تشدد‘ کا نشانہ بنایا ہے۔

ایران میں عوامی غصہ اس وقت بھڑک اٹھا جب 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی 16 ستمبر کو اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ ان کو موت سے تین روز قبل خواتین کے لیے حجاب کے سخت قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہروں کی آگ امینی کے آبائی صوبے کردستان سے نکل کر پورے ایران میں پھیل گئی اور اس دوران کئی خواتین نے احتجاجاً اپنے سکارف کو جلایا اور اپنے بال کاٹ دیے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خبردار کیا کہ امینی کی موت پر غم و غصے کے باوجود عوامی سلامتی ’حکومت کے لیے سرخ لکیر‘ ہے اور کسی کو بھی قانون شکنی اور افراتفری پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔

ایران میں جاری مظاہروں کی امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے حمایت اور حکومتی کریک ڈاؤن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 

ایران نے جمعرات کو فرانس کی طرف سے احتجاج کی حمایت میں بیان پر اسے اپنے اندرونی معاملات میں ’مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ تہران نے اس سے قبل برطانیہ اور ناروے سے بھی اسی قسم کی شکایت کی تھی۔

ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے ہیں اور ہفتے کو 70 شہروں میں ریلیاں نکالی گئی ہیں۔

ایک احتجاج افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بھی شروع ہوا جہاں خواتین نے ایرانی سفارت خانے کے باہر بینرز کے ساتھ ریلی نکالی۔ حکمران طالبان کی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اپنی ہوائی فائرنگ کی اور خواتین سے بینرز چھین لیے اور انہیں پھاڑ ڈالا۔

ایران نے صحافیوں کے خلاف بھی کارروائی کی ہے جس کے تحت جمعرات کو رپورٹر الٰہی محمدی کو گرفتار کیا جنہوں نے مہسا امینی کے جنازے کی کوریج کی تھی۔ ان کے وکیل نے کہا کہ یہ حراست میں لیے جانے والے صحافیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا تازہ ترین واقعہ ہے۔

پولیس نے روزنامہ اصلاحی شارگ کی صحافی نیلوفر حمیدی کو بھی گرفتار کر لیا ہے جنہوں نے پہلی بار اس کیس کو دنیا کے سامنے لانے میں مدد کی تھی۔

خبر رساں ادارے ’فارس‘کے مطابق پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس افسران نے قم شہر میں ’فسادات‘ کے پیچھے ’ایک منظم نیٹ ورک‘ کے 50 ارکان کو گرفتار کیا۔

لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایران کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے ’غیر قانونی استعمال اور بے رحمانہ تشدد‘ پر تنقید کی ہے۔ گروپ کے سکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ ایران میں جاری مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں ’اب تک درجنوں افراد بشمول بچوں کی موت ہو چکی ہے اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔‘

فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اب تک 60 لوگ مارے جا چکے ہیں جب کہ اوسلو میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس نے کم از کم 76 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا