ایران مظاہرین کے خلاف حد سے زیادہ طاقت کا استعمال نہ کرے: اقوامِ متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے ایرانی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ پولیس کی زیر حراست مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت کے بعد سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کے خلاف ’حد سے زیادہ طاقت‘ کا استعمال نہ کریں۔

نیویارک میں 21 ستمبر 2022 کو مظاہرین اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر مہسا امینی کی زیرحراست موت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پر زور دیا ہے کہ وہ پولیس حراست میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کے خلاف ’حد سے زیادہ طاقت‘ کا استعمال نہ کریں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ایک دوطرفہ ملاقات میں گوتیریش نے ’ابراہیم رئیسی کو اظہار رائے کی آزادی، پرامن اجتماع اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘

ڈوجارک نے ایک بیان میں کہا: ’ہمیں احتجاج سے وابستہ خواتین اور بچوں سمیت بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی اطلاعات پر تشویش ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گوتیریش نے (ایرانی) سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کے استعمال سے گریز کریں اور سب سے اپیل کی کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں۔‘

انہوں نے ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں ہلاک ہونے والی نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کی ’فوری، غیر جانبدارانہ اور موثر تحقیقات‘ کا بھی مطالبہ کیا، جن کی ہلاکت کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

22 سالہ مہسا کو مبینہ طور پر حجاب اور لباس کے متعلق ملک کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دفتر نے ہفتے کو احتجاج کو ’فسادات‘ قرار دیتے ہوئے ’ملک اور عوام کی سلامتی اور امن کے مخالفین کے خلاف فیصلہ کن کارروائی‘ پر زور دیا تھا۔

ایران کے عوام نے مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف منگل کو خواتین کی قیادت میں مسلسل 12ویں روز احتجاجی مظاہرہ کیا حتی کہ یہ خدشہ بھی تھا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی وجہ سے سکیورٹی فورسز سخت کریک ڈاؤن کریں گی۔

بیرون ملک مقیم حزب اختلاف کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ مختلف ایرانی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں، لیکن کارکنوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی وجہ سے ویڈیو فوٹیج شیئر کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مانوتو ٹیلی ویژن کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو دکھایا گیا، جنہوں نے اپنا حجاب اتار رکھا تھا اور بازو ہوا میں لہرا رہی تھی۔ اس ٹی وی نے جنوبی بندرگاہی شہر چابہار میں ہونے والے احتجاج کی بھی اطلاع دی ہے۔

اوسلو سے تعلق رکھنے والے گروپ ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) نے کہا کہ تہران کے ضلع شہرک غرب میں لوگوں نے اپنے گھروں اور اپارٹمنٹس کی چھتوں اور کھڑکیوں سے بھی ’ڈکٹیٹر مردہ باد!‘ اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد!‘ کے نعرے لگائے۔

لندن سے تعلق رکھنے والے ایران انٹرنیشنل ٹی وی نے خبر دی ہے کہ مہسا امینی کے آبائی صوبے کردستان کے شہر سنندج میں خواتین کو حجاب اتارتے ہوئے دیکھا گیا اور جنوبی شہر شیراز میں ایک شخص کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بینر کو نذر آتش کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

نیویارک میں قائم ’سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران‘ کا کہنا ہے کہ ’ایران میں انٹرنیٹ اور موبائل بلیک آؤٹ ہے لیکن کچھ ویڈیوز اب بھی منظر عام پر آ رہی ہیں۔‘

نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کا کہنا ہے کہ 16 ستمبر کو مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک ’تقریباً 60 افراد ہلاک‘ ہو چکے ہیں۔ لیکن ایران ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ کریک ڈاؤن میں کم از کم 76 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

عالمی حقوق

ایرانی حکام نے پیر کو بتایا تھا کہ انہوں نے 1200 سے زائد گرفتاریاں کی ہیں جن میں کارکن، وکلا اور صحافی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق منگل کو سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی کو بھی احتجاج پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق فائزہ ہاشمی کو تہران کے مشرق میں ایک سکیورٹی ایجنسی نے فسادیوں کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا۔

اے ایف پی کی جانب سے شائع ہونے والی حالیہ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں سیاہ زرہ بکتر میں ملبوس پولیس نے مظاہرین کو ڈنڈوں سے پیٹا اور سکیورٹی فورسز نے خواتین پر قریب سے چھرے والی بندوق سے فائر کیے۔

عوام کے مطالبات

آزادی اظہار رائے کے گروپ آرٹیکل 19 کے لیے ایران کی سینیئر محقق مہسا علی مردانی کا کہنا ہے کہ ’انٹرنیٹ بلیک آؤٹ اتنا ہی برا تھا جتنا نومبر 2019 میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والے خطرناک مظاہروں کے دوران ہوا تھا۔‘

انہوں نے کہا:  ’مواد پہلے کی طرح باہر آنا بند ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران تک ہماری رسائی کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں۔ مزید خونریزی کا خوفناک امکان ہے۔‘

ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے احتجاج پر اکسانے والوں کے خلاف ’نرمی کے بغیر فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت‘ پر زور دیا ہے۔

لیکن ملک کی انتہائی قدامت پسند سٹیبلشمنٹ کے ساتھ طویل عرصے سے وابستہ ایک طاقتور شیعہ عالم دین نے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ نرم موقف اختیار کریں۔

آیت اللہ حسین نوری ہمدانی نے کہا کہ ’رہنماؤں کو چاہیے کہ عوام کے مطالبات سنیں، ان کے مسائل حل کریں اور ان کے حقوق کے لیے حساسیت کا مظاہرہ کریں۔‘

اس خونی کریک ڈاؤن کی مغربی ممالک کی جانب سے شدید مذمت نے ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے سفارتی کوششوں کو دھندلا دیا ہے، جسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ترک کر دیا تھا۔

مظاہرین کے خلاف اس کریک ڈاؤن کی دنیا بھر سے مذمت کی جا رہی ہے۔

امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے ’دیگر حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان جرات مند مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہوں اور زیادتیوں پر ایرانی حکام کا محاسبہ کریں۔‘

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایران پر زور دیا ہے کہ ’وہ اپنی بنیادی آزادی کا اظہار کرنے والی خواتین کے خلاف تشدد کا استعمال بند کرے۔‘

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے’غیر متشدد مظاہرین کے خلاف طاقت کے زیادہ اور غیر متناسب استعمال‘ کی وجہ سے ایران پر تنقید کی۔

امریکہ نے گذشتہ ہفتے ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کو کہا تھا کہ ان کا ملک بھی ایران کے ’درجنوں افراد اور اداروں‘ پر پابندیاں لگائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا