ایران حجاب مخالف مہم: ’گرفتار کر سکتے ہیں، روک نہیں سکتے‘

ایران میں خواتین حکام کی جانب سے لباس سے متعلق سخت قانون کے خلاف عوامی مقامات پر حجاب اتارنے کی ایسی ہی مہم ماضی میں بھی چلا چکی ہیں۔

سات فروری 2018 کی اس تصویر میں ایران کے دارالحکومت تہران میں خواتین کو سڑک پر چلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران میں ہر سال 12 جولائی کو قومی حجاب ڈے منایا جاتا ہے(اے ایف پی)

اس سال ایران میں ’حجاب اور عفت کا قومی دن‘ ایک سے زیادہ وجہ سے غیر معمولی تھا۔ اس دن سے اب تک بعض خواتین اور حقوق نسواں کی علمبردار سوشل میڈیا پر حجاب اتار پھینکنے کی ویڈیوز اور تصاویر شائع کر رہی ہیں۔

ایران میں خواتین نے حکام کی جانب سے لباس سے متعلق سخت قانون کے خلاف عوامی مقامات پر حجاب اتارنے کی یہ مہم کوئی پہلی مرتبہ نہیں شروع کی۔

انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے گئے کلپ میں ایک ایرانی خاتون کیمرے کو دیکھ کر کہتی ہے: ’لازمی حجاب کو نہ کہو! آج میں اپنے دفتر ننگے سر چلی گئی۔ ہمیں امید ہے کہ ہم انتخاب اور لباس میں خود مختار ہوں گی۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں نے بغیر حجاب کے عوامی مقامات پر اپنی ویڈیوز بھی شائع کی ہیں۔

انہوں نے ایسا قومی حجاب ڈے کے موقع پر کیا جو ایران میں ہر سال 12 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے انہیں جیل جانے کا خطرہ ہے کیونکہ وہ ملک کے ’اسلامی لباس کوڈ‘ کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

خواتین نے ملک کے مختلف حصوں میں تفریحی مقامات اور گلیوں میں یہ ویڈیوز ریکارڈ کی ہیں۔

ہزاروں لوگوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے ہوئے اپنا حجاب اتار کر زمین پر پھینک دیتی ہے۔

اسی روز حکام نے خواتین کے حجاب کی پابندی کی حمایت میں ’اسلامک سپورٹ‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ’پردہ اور حجاب‘ کے نام سے ایک پروگرام نشر کیا جس میں خواتین نے لمبی سفید قمیضیں اور سر پر سبز سکارف پہنا تھا، جو کہ ایران کے قومی پرچم کا رنگ ہے۔

اس کے ساتھ ہی فارسی زبان میں ایک ہیش ٹیگ بڑے پیمانے پر چل رہا ہے جس میں لکھا ہے: ’اس بار لازمی حجاب کو نہ کہو۔‘

 اسے صحافیوں اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے بھی شیئر کیا ہے۔

بعض خواتین نے مردوں کو اہم عہدے دیے جانے اور ان کی شخصی آزادی پر قدغن لگانے پر تنقید کی ہے۔

بی بی سی فارسی کی ایک رپورٹ کے مطابق حکام نے کم از کم پانچ خواتین کو ایسی ویڈیوز کی وجہ سے گرفتار کیا ہے۔

کچھ ایرانی خواتین نے حجاب پہننے یا نہ پہننے کے حق کے لیے #MyStealthyFreedom اور #WhiteWednesday جیسی مہمات شروع کی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواتین کے خلاف ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کی سخت کارروائیاں قابل ذکر رہی ہیں، خاص طور پر ان خواتین کے خلاف جن پر اسلامی لباس کی پابندی نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ایران میں یہ پولیس خواتین کو مناسب حجاب نہ پہننے پر گرفتار کرتی ہے۔

1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد سے قانون کے تحت خواتین کو ’اسلامی‘ نقاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

قانون کے مطابق خواتین کو چادر (لمبا لباس) پہننا چاہیے جو عام طور پر کپڑے کے ایک ٹکڑے سے بنا ہوتا ہے اور پورے جسم کو ڈھانپتا ہے۔

ایران کی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجائی نے کہا کہ خواتین کی بےپردگی کے پیچھے غیرملکیوں کا ہاتھ ہے اور انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کو ہدایت کی کہ وہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں۔

ملک کے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی ’اسلامی معاشرے میں منظم بدعنوانی کی روایت‘ کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ لیکن ان دھمکیوں کے باوجود کئی خواتین نے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔

ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا: ’آپ ہمیں گرفتار کر سکتے ہیں لیکن آپ ہماری مہم کو نہیں روک سکتے۔‘

’ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، ہم نے کئی سالوں سے اپنی آزادی کھو دی ہے اور ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین