مسلم خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل نہیں: بھارتی عدالت

کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو قائم رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

بھارت کے شہر بنگلور میں ایک خاتون 15 مارچ 2022 کو ایک سکول سے باہر پولیس کے ناکے سے گزر رہی ہیں۔ اسی دن بھارتی ہائی کورٹ نے کمرہ جماعت میں برقع پہننے پر پابندی برقرار رکھی ہے (تصویر: اے ایف پی)

ایک بھارتی عدالت نے ریاست کرناٹک میں منگل کو تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک بڑی مسلم اکثریت والے ملک کے باقی حصوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔

کرناٹک میں پانچ فروری کو تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے خلاف مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔

ان مظاہروں کی مخالفت میں ہندو طلبہ نے بھی احتجاج شروع کر دیا جس کی وجہ سے حکام اس ماہ کے آغاز میں تعلیمی ادارے بند کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ تنازع اس تنقید کا باعث بنا کہ ملک میں مسلمانوں کو مزید پسماندہ کیا جارہا ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستی نے فیصلے میں کہا کہ ’ہماری رائے ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے حکم کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یکساں رہنما اصول تجویز کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے۔

فیصلے سے قبل کرناٹک کے حکام نے سکولوں اور کالجوں کو بند کرنے کا اعلان کیا اور ممکنہ مشکلات کے تدارک کے لیے ریاست کے کچھ حصوں میں عوامی اجتماعات پر پابندیاں عائد کر دیں۔

وفاقی وزیر داخلہ امت شاہ نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ طلبا کسی مذہبی لباس کی بجائے یونیفارم کو ترجیح دیں۔

حجاب پر پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے والے طلبہ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا بھارت کے آئین کے تحت ایک بنیادی حق اور اسلام کا لازمی عمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

21 فروری 2022 کو ہونے والی سماعت میں دیے جانے والے استغاثہ کے دلائل کے مطابق ’حجاب یا تو مذہب کے لیے ضروری ہو سکتا ہے یا پیروکاروں کے لیے اختیاری۔‘

اثتغاثہ کے مطابق: ’درخواست گزار مذہبی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک مخصوص لباس لازم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہر اس عورت کو پابند کیا جاسکے جو اسلامی عقیدے کی پیروی کرتی ہے۔ یہی دعوے کی سنگینی ہے۔‘

کرناٹک کی جانب سے حجاب پر پابندی کے نتیجے میں ملک کے کچھ دیگر حصوں میں بھی احتجاج ہوا تھا اور امریکہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کی طرف سے تنقید کی گئی تھی۔

کرناٹک کے وزیر اعلی بسوراج بومئی نے کہا کہ بچوں کی تعلیم کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ ’میں تمام طلبا اور کمیونٹی رہنماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول کریں اور یکساں اصول کے نفاذ کے لیے ریاستی حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔‘

مسلمان ممالک کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹیریٹ نے بھارت میں ’ہندو توا‘ کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کے سرعام اعلانات، سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین کو ہراساں کیے جانے کے مبینہ واقعات کے ساتھ ساتھ ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی لگائے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

او آئی سی کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں بین الاقوامی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’او آئی سی کا جنرل سیکریٹیریٹ ایک بار پھر بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمان برادری کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنائے اور تشدد، نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔‘

ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کیا کہا:

1. مسلم لڑکیوں کی طرف سے کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت کے لیے دائر درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔

2. عدالت کا خیال ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا اسلامی عقیدے میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔

3. طلبا تعلیمی اداروں کی طرف سے تجویز کردہ یونیفارم پر اعتراض نہیں کر سکتے۔

4. کسی ادارے میں طلبا کے لیے یونیفارم کا فیصلہ معقول پابندیوں کے زمرے میں آتا ہے۔

5. حکومت کو سرکاری حکم جاری کرنے کا اختیار ہے، اس کے معطل ہونے کے لیے کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا ہے۔

6. انفرادی انتخاب پر ادارہ جاتی نظم و ضبط غالب ہے۔ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 25 کی تشریح میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔

7. یہ حکم سبریمالا (کیس) میں ایس سی کے ذریعہ قانون کی حیثیت کو یہ کہہ کر دوبارہ بیان کرتا ہے کہ جو بنیادی طور پر مذہبی ہے وہ کافی نہیں ہے لیکن جو دکھایا جانا ضروری ہے وہ مذہب کے لیے ضروری ہے۔

8. عدالت اس بات پر پریشان ہے کہ کیسے اچانک حجاب کا مسئلہ پیدا ہوا اور اسے ہوا دی گئی۔

9. جس طرح سے حجاب کی بے قاعدگی سامنے آئی ہے اس سے اس دلیل کی گنجائش نکلتی ہے کہ سماجی بدامنی اور بدامنی پھیلانے کے لیے کچھ 'ان دیکھے ہاتھ' کام کر رہے ہیں۔

10. اگر انتظامی کمیٹیوں کی طرف سے یونیفارم کا تعین نہیں کیا جاتا ہے، تو طلبا کو ایسے کپڑے پہننے چاہیں جو معاشرتی نظام کو خراب نہ کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا