سکولوں میں حجاب ضروری یا نہیں: بھارتی عدالت کی سماعت ملتوی

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ اس بات کے حق میں ہیں کہ طلبہ سکولوں میں کوئی مذہبی لباس پہننے کی بجائے یونیفارم پہنیں۔ تاہم کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے بارے میں عدالت کا فیصلہ آ جانے کے بعد وزیر داخلہ کا مؤقف تبدیل ہو سکتا ہے۔

بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ میں حجاب کیس کی سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل نے اپنے دلائل دیے، جب کہ آٹھ مارچ تک ریاست کے سکولوں میں دفعہ 144 نافذ ہے۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق سماعت کے دوران ریاست کا موقف ہے کہ اگر حجاب اسلام کے لیے ضروری ہے تو یہ اختیاری نہیں ہے۔

استغاثے کے دلائل کے مطابق ’حجاب یا تو مذہب کے لیے ضروری ہو سکتا ہے یا پیروکاروں کے لیے اختیاری۔ ’درخواست گزار مذہبی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک مخصوص لباس لازم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ہر اس عورت کو پابند کیا جا سکے جو اسلامی عقیدے کی پیروی کرتی ہے۔ یہی دعوے کی سنگینی ہے۔‘

سبری مالا کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی کا موقف تھا کہ ’اگر کوئی عمل اختیاری ہے، تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہب کے لیے اسے ’ضروری‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لازم امر وہ قرار پائے گا جس پر عمل نہ ہونے کی صورت میں مذہب کے احکامات تبدیل ہونے کا گمان ہو۔‘

اپنے دلائل استوار کرتے ہوئے استغاثہ کا موقف تھا کہ  مندرجہ ذیل اصول موجودہ کیس پر لاگو کیے جائیں:

  • مذکورہ عمل اس مذہب کی بنیادی تعلیمات میں ہونا چاہیے۔
  • اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ خود مذہب کی تبدیلی کی صورت میں نکلے۔
  • فعل کا تعلق مذہب کی ابتدا سے ہونا چاہیے۔
  • مذہب کی بنیاد اسی عمل پر ہونی چاہیے یا مذہب کی شروعات کے ساتھ  وہ عمل لازم قرار پایا ہو۔
  • عمل اس مذہب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
  • عمل کے احکامات ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ اختیاری نہ ہو۔ وہ عمل مذہب کے ماننے والوں کی مجبوری ہونا چاہیے تاکہ اگر کوئی اس کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ اس مذہب کا حصہ نہ کہلا سکے۔

وکیل جنرل پربھولنگ نوادگی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’پہلے، سوال یہ تھا کہ مذہبی لوازمات کی بنیادیں کیا ہیں۔ پھر عدالتی نقطہ نظر میں تبدیلی آئی اور اب یہ حکم دیا گیا کہ  بینادی طور پر مذہبی لوازم کیا ہیں، وہ تفصیل بتائی جائے جس کے مطابق یہ فعل مذہب کے لیے قطعی ضروری ہے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت لازم حکم وہ ہوتا ہے جس کے بغیر کسی مذہب سے تعلق جوڑے رکھنا ناممکن ہو۔‘

’اس طرح، یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ حجاب پہننا اسلام کے لیے ضروری ہے۔‘ 

آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد حجاب کیس کی سماعت کل دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف ملک کے بعض دوسرے حصوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے جب کہ امریکہ اور اسلامی تعاون تنظیم نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں پانچ فروری کو مسلم طالبات کی طرف سے تعلیمی اداروں میں حجاب لینے پر پابندی لگا دی تھی جس کے خلاف مسلمان طلبہ اور ان کے والدین نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ ان مظاہروں کی مخالفت میں ہندو طلبہ نے بھی احتجاج شروع کر دیا جس کی وجہ حکام اس ماہ کے شروع میں سکول بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کی ایک ارب 35 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 13 فیصد مسلمان ہیں۔ انہوں نے مسلمان خواتین کی جانب سے روائتی حجاب لینے پر پابندی کی مذمت کی ہے۔ حجاب ایسا پہناوا ہے جو خواتین کے سر اور گردن کو ڈھانپتا ہے اور ایک ہندو اکثریتی ملک میں مسلمانوں کو دبانے کی ایک اور علامت سمجھا جاتا ہے۔

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ طلبہ سکولوں میں کوئی مذہبی لباس پہننے کی بجائے یونیفارم پہنیں۔ تاہم کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے بارے میں عدالت ایک بار کا میرٹ کا فیصلہ آ جانے کے بعد وزیر داخلہ کو مؤقف تبدیل ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا