بھارت: اترپردیش میں بھی تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کا مطالبہ

بھارت کے تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب لینے پر پابندی کا معاملہ اب سب سے گنجان آباد بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھی جا پہنچا ہے، جہاں پر ایک کالج کے مرد طلبہ نے حجاب پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔

15 فروری 2022 کو  بھارتی ریاست کرناٹک کے چند تعلیمی اداروں کی طرف سے حجاب پہننے والی طالبات کو داخلہ دینے سے منع کیے جانے کے بعد حیدرآباد میں  ایک خاموش احتجاج کے دوران مسلم ویمن ایسوسی ایشن کی  اراکین نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف  پی)

بھارتی ریاست کرناٹک میں مسلمان طالبات پر حجاب پہننے کی پابندی کے متنازع قانون کے بعد اب سب سے زیادہ گنجان آباد بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک کالج کے مرد طلبہ نے بھی یہی مطالبہ دہرایا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش میں دو درجن سے زائد مرد طلبہ نے علی گڑھ میں واقع دھرما سماج کالج کی انتظامیہ کو لکھے گئے ایک خط میں کالج کی چار دیواری کے اندر حجاب پہننے پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کالج کے چیف پروکٹر مکیش بھردواج کا حوالہ دیتے ہوئے روئٹرز نے لکھا: ’انتظامیہ کو خط دینے والے لڑکوں نے زعفرانی رنگ کے مفلر کاندھوں پر ڈال رکھے تھے جو عمومی طور پر ہندو پہنتے ہیں۔‘

مکیش نے یہ بھی کہا کہ ’وہ ان لڑکوں کو نہیں پہچانتے۔ فی الحال کلاس رومز میں مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں لیکن باقی کے کالج کیمپس میں یہ پہنا جا سکتا ہے۔‘

مکیش نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو بتایا: ’دو سال پہلے بھی یہ معاملہ اٹھا تھا اور اب دوبارہ اسے اجاگر کیا گیا ہے۔ ہم کسی بھی قسم کا مذہبی یونیفارم پہننے کی اجازت نہیں دیتے اور ہمارے ہاں سب کے لیے ایک جیسے یونیفارم کی پابندی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبات کے لیے ایک کمرہ مختص ہے جہاں پر وہ کلاس رومز میں جانے سے پہلے کپڑے بدل سکتی ہیں۔‘

ریاست اتر پردیش کی آبادی برازیل کی آبادی کے برابر ہے، جس پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے یوگی ادتیہ ناتھ حکومت کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ آئندہ ماہ اتر پردیش میں ریاستی الیکشن کا آغاز ہونے جا رہا ہے جو کئی مراحل میں مکمل ہوں گے۔ روئٹرز کے مطابق اتر پردیش میں ہندو مسلم تنازع کو اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سے قبل بھارتی ریاست کرناٹک میں انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کے اندر حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے بعد ایک کالج کی طالبہ کو زعفرانی رنگ کے مفلر پہنے درجنوں مرد طلبہ نے کیمپس کے اندر جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

کرناٹک کے اس واقعے کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب لڑکے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا کر لڑکی کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس وقت مسکان نامی کالج طالبہ نے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔

بعدازاں مختلف خبر رساں اداروں سے بات کرتے ہوئے مسکان کا کہنا تھا کہ ’لڑکے جے شری رام کا نعرہ لگا کر مجھے برقعہ اتارنے کو کہہ رہے تھے۔ اس پر میں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کیوں کہ جب میں اللہ اکبر بولتی ہوں تو مجھ میں ہمت آتی ہے۔‘

ریاست کرناٹک میں تعلیمی اداروں کے اندر حجاب پہننے پر پابندی کا معاملہ عدالت میں ہے، جس پر آج منگل کے روز سماعت ہو گی۔

حجاب پر پابندی اور مسکان والے واقعے کے بعد کرناٹک سمیت بھارت کے کئی علاقوں میں مسلمان لڑکیوں اور ہندو لڑکوں کے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔

 مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹریٹ نے بھی بھارت میں ’ہندو توا‘ کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کے سرعام اعلانات، سوشل میڈیا پر مسلمان خواتین کو ہراساں کیے جانے کے مبینہ واقعات کے ساتھ ساتھ ریاست کرناٹک میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی لگائے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

او آئی سی کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں بین الاقوامی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’او آئی سی کا جنرل سیکریٹریٹ ایک بار پھر بھارت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمان برادری کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنائے اور تشدد، نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا