فرانس میں ڈیڑھ سو سے زائد سینیٹرز کی رائے سے منظور ہونے والی آئینی ترمیم کے خلاف نوجوان خواتین فٹ بالرز نے احتجاج کیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے کھلاڑیوں پر کوئی بھی مذہبی نشان پہن کر کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک نوجوان خاتون فٹ بالر اور سٹیزن الائنس کی شریک صدر فونے دیوارا نے کہا کہ ’ہمیں جس چیز سے مسئلہ ہے وہ یہ کہ کچھ خواتین پیچھے رہ گئی ہیں۔ جیسے ہزاروں وہ خواتین جو حجاب پہنتی ہیں اور فٹ بال کھیلتی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے۔ حالاںکہ فٹ بال کی بنیادی اقدار اتحاد اور ساتھ رہنے کی ہیں۔‘
احتجاج کے دوران نوجوان خواتین فٹ بالرز نے نمائشی میچ بھی کھیلا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ کھیل کی کارکردگی پر لباس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فونے دیوارا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’عدم تشدد پر مبنی یہ اقدام سیٹیزن الائنس کی جانب سے لیا گیا ہے تاکہ 160 سینیٹرز کی حمایت سے کی جانے والی ترمیم کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔ اس ترمیم نے کھیلوں کی تنظیموں اور سرکاری مقابلوں کے دوران مذہبی نشانوں کے پہننے پر پابندی لگا دی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرانس میں اس انوکھی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے فونے دیوارا کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حجاب کیوں اتاریں۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ قانون میں ایسا کچھ نہیں کہ حجاب پہننا کھیلوں کی اقدار کے خلاف ہے۔ اس لیے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہمیں حجاب اتارنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز سے اس کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حجاب پہننا ایک ذاتی چیز ہے۔ کسی کو بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہمیں حجاب اتارنے کے لیے کہے۔‘
یاد رہے کہ فرانس کے ایوان بالا ’سینیٹ‘ نے 18 فروری 2022 کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کھیل کے مقابلوں میں کسی بھی قسم کا مذہبی نشان پہن کر شرکت کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس آئینی ترمیم کے لیے یہ جواز اختیار کیا گیا تھا کہ کھیل کے میدان میں غیر جانبداری کا اظہار ضروری ہے۔ اس متنازع آئینی ترمیم کے حق میں 160 جب کہ مخالفت میں 143 ووٹ پڑے تھے۔ فرانس کا ایوان بالا 348 ممران پر مشتمل ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ 2024 کے اولمپکس کا انعقاد پیرس میں ہو گا جس میں مسلم ممالک سمیت دنیا بھر سے کھلاڑیوں کی شرکت ہونی ہے۔