انڈیا سے کی گئی ٹویٹس سے برطانیہ میں ہندو مسلم بدامنی کیسے پھیلی؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک کرکٹ میچ کے بعد مقامی لوگوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوا اور جلد ہی ہندو اور مسلمان مرد وسطی انگلینڈ کے شہر لیسٹر کی سڑکوں پر ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف تھے۔

21 نومبر 2015 کی اس تصویر میں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں پولیس اہلکار گشت کر رہے ہیں۔ لیسٹر شائر پولیس چیف راب نکسن کے مطابق سوشل میڈیا پر غلط معلومات نے گذشتہ ماہ ہونے والی بدامنی میں ’بہت بڑا کردار‘ ادا کیا تھا  (اے ایف پی/ لنڈسی پارنابی)

وسطی انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کر لیا گیا ہے اور ایک ہندو مندر سے نقاب پوش افراد لڑائی کے لیے آئے ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک کرکٹ میچ کے بعد مقامی لوگوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوا اور جلد ہی ہندو اور مسلمان مرد وسطی انگلینڈ کی سڑکوں پر ایک دوسرے سے لڑے میں مصروف تھے۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ ایک ’سوشل میڈیا طوفان‘ تھا، جو ایک دوسرے براعظم میں بیٹھ کر اٹھایا گیا اور اس کے حقیقی اثرات برطانیہ کے شہر لیسٹر میں دیکھے گئے، جہاں پولیس نے تقریباً 50 گرفتاریاں کیں اور ایک کمیونٹی کے ٹکڑے ہوگئے۔

فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ ’لاجیکلی‘ کے ترجمان، جنہوں نے ان سوشل میڈیا پوسٹس کا تجزیہ کیا، نے کہا: ’یہ ایک مضبوط مثال ہے کہ ٹوئٹر پر بنائے گئے ہیش ٹیگ کس طرح مشکوک اشتعال انگیز دعوؤں کا استعمال کرکے زمین پر کشیدگی کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اشتعال انگیز ٹویٹس، افواہیں اور جھوٹ انڈیا سے پروان چڑھے، جو ’بے قابو سوشل میڈیا‘ کی اس طاقت کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے غلط معلومات اور پورے براعظم میں بدامنی پھیلی۔

لیسٹر کے میئر پیٹر سولسبی نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا: ’میں نے سوشل میڈیا پر بہت سی چیزیں دیکھی ہیں جو اب بہت زیادہ مسخ شدہ ہیں اور ان میں سے کچھ ایسی ہیں جو مختلف برادریوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے مکمل طور پر جھوٹی ہیں۔‘

لیسٹر شائر پولیس چیف راب نکسن نے بی بی سی کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات نے گذشتہ ماہ ہونے والی بدامنی میں ’بہت بڑا کردار‘ ادا کیا تھا۔

ان میں سے کچھ دعوؤں کا جواب دینے کی غرض سے پولیس نے خود سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور بتایا کہ انہوں نے ان خبروں کی مکمل تحقیقات کی ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ تین افراد نے ایک نوعمر لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور انہیں اس آن لائن کہانی میں کوئی صداقت نہیں ملی۔

راب نکسن نے کہا: ’ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر صرف ایسی معلومات شیئر کریں جن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔‘

حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والوں کو ان دعوؤں میں بھی کوئی سچائی نہیں ملی کہ نقاب پوش غنڈوں کے گروہوں کو لیسٹر میں بھیجا گیا تھا۔

تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوؤں اور ہندو مقامات پر حملے کا الزام لگانے والی بہت سی گمراہ کن پوسٹس انڈیا سے کی گئیں۔

’لاجیکلی‘ نے کہا کہ جغرافیائی کوآرڈینیٹ یا جیو ٹیگ کی گئی معلومات کے ساتھ تقریباً 80 فیصد ٹویٹس کا تعلق انڈیا سے تھا۔

ایک ترجمان نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ ’برطانیہ کے ساتھ جیو ٹیگ کی گئی ٹویٹس کا تناسب انڈیا کے ساتھ جیو ٹیگ کی گئی ٹویٹس کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھا، جو بظاہر ایک مقامی واقعہ تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’انڈیا میں ہائی پروفائل شخصیات کی شمولیت نے بحث کو جنم دیا، جو ایک اہم عنصر تھا۔‘

بی بی سی مانیٹرنگ کا کہنا ہے کہ اس نے جن دو لاکھ ٹویٹس کی تحقیقات کی ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ ان اکاؤنٹس سے آئے ہیں جو جیو ٹیگ کیے گئے ہیں جن میں #Leicester# ، HindusUnderAttack اور #HindusUnderattackinUK جیسے ہیش ٹیگ شامل ہیں۔

ٹوئٹر نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

’خوفناک‘ ہیش ٹیگ

فیکٹ چیک نے اس بات کی تصدیق کی، جس کا لیسٹر کے متعدد رہائشیوں کو برسوں سے شبہ تھا کہ آن لائن غلط معلومات اور بدسلوکی، جس کا مقصد مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا ہے، انڈیا میں موجود صارفین کی طرف سے آئیں جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس کی جانچ پڑتال کے لیے یا تو کچھ بھی نہیں کر رہے تھے یا جو کر رہے تھے وہ ناکافی تھا۔

برطانوی کمیونٹی کے غیر منافع بخش ادارے ساؤتھ ایشیا سالیڈیریٹی گروپ سے وابستہ کیوال بھرادیا کا کہنا ہے کہ ’لیسٹر میں ہونے والے واقعات اچانک نہیں ہوئے۔‘

انہوں نے کہا: ’دوست احباب اور اہل خانہ برسوں سے فرضی خبریں اور غلط معلومات بھیج رہے ہیں۔ یہ ٹرول آرمی کی جانب سے پروپیگنڈے کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔‘

انڈیا کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لندن میں انڈین ہائی کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ وہ لیسٹر میں انڈین برادری کے خلاف تشدد اور ’ہندو مذہبی مقامات اور علامتوں‘ کی توڑ پھوڑ کی ’سخت‘ مذمت کرتے ہیں۔

بعض مبصرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انڈیا کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا اس سوشل میڈیا جنگ میں ہاتھ ہے، جس میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بی جے پی 2014 میں انڈیا میں برسراقتدار آئی اور 2019 میں ماضی کی نسبت زیادہ ووٹوں سے جیتی تھی، اس کی کامیابیوں کا سہرا اس کے ٹیکنالوجی سیل اور سوشل میڈیا کی صلاحیت کو جاتا ہے، جسے ہزاروں حامیوں کی مدد حاصل ہے، جنہیں وہ ڈیجیٹل ’یودھا‘ یا جنگجو کہتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ٹیکنالوجی سیل کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ سائبر رضاکار اکثر مذہبی اقلیتوں کو گالیاں دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ میں دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ایکویلٹی لیبز نے کہا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ہزاروں وٹس ایپ اور ٹیلی گرام چیٹ گروپس کے ذریعے بیرون ملک مقیم انڈین برادری میں ’قوم پرستانہ، اسلامو فوبک اور ذات پات سے متعلق غلط معلومات‘ پھیل رہی ہیں۔

ایکویلٹی لیبز سے وابستہ تھینموزی سوندارا راجن نے کہا: ’عالمی جنوبی ایشیائی باشندوں میں غلط معلومات کے سب سے بڑے نیٹ ورکس میں سے ایک ہندو قوم پرستی ہے، جس میں ذات پات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ اور اکثر خوفناک حملے ہوتے ہیں۔‘

سوندارا راجن نے صحافیوں کے لیے توہین آمیز اصطلاح ’پریسٹی ٹیوٹ‘ اور انڈیا میں مقبول اسلامو فوبک سازشی تھیوری ’لو جہاد‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’صرف ان ہولناک ہیش ٹیگ کے بارے میں ہی سوچیں، جو اب معمول بن چکے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وٹس ایپ پر پھیلائے گئے بیانات سے آف لائن تشدد ہوتا ہے۔‘

خاموش گواہ

انڈین فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی پراتک سنہا نے کہا: ’اگرچہ تارکین وطن نے طویل عرصے تک انڈیا سے آنے والا مواد پڑھا اور واقعات پر تبصرہ کیا ہے، لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عروج کے ساتھ غلط معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہم میں اب بہت زیادہ تفریق پیدا ہوچکی ہے اور یہ خاص طور پر ملک سے باہر مقیم انڈینز کے بارے میں سچ ہے، جو زمینی حقائق کی جانچ نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خاص طور پر علاقائی زبانوں میں بہت سی نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پر قابو نہیں پایا جاتا۔‘

زیادہ تر شور میٹا، سابقہ فیس بک سے پیدا ہوتا ہے، جس نے 2019 میں سول سوسائٹی گروپوں کی تنقید کے بعد، انڈیا میں اپنے پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے میں اپنے کردار کا آزادانہ جائزہ لینے کا کہا تھا۔

لیکن اس کے بعد میٹا نے کہا کہ ’وہ مکمل رپورٹ جاری نہیں کرے گی‘، تاہم انہوں نے انڈیا کے لیے اپنی کانٹینٹ ماڈریشن اور لینگویج سپورٹ میں ’نمایاں اضافہ‘ کیا ہے۔

انڈیا میں تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ صارفین رکھنے والے ٹوئٹر نے انڈین عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسی پوسٹس کو ہٹانے کے کچھ حکومتی احکامات کو کالعدم قرار دے، جن کے بارے میں نئی دہلی کا کہنا ہے کہ غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں۔

گذشتہ ماہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹیلی ویژن ’نفرت انگیز تقاریر کا سب سے بڑا ذریعہ‘ ہے اور حکومت ’خاموش گواہ کے طور پر کیوں کھڑی ہے۔‘

انڈین حکومت نے اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

دوسری جانب پراتک سنہا نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بڑی مارکیٹوں میں نفرت انگیز تقریر اور غلط معلومات کو بڑے پیمانے پر چیک نہیں کیا جاتا۔‘

انہوں نے کہا: ’غلط معلومات بنیاد پرستی کی طرف لے جاتی ہیں، آپ کہیں بھی ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اس کے نتائج پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ