مہسا امینی کی موت: ایران میں جاری احتجاج میں بچے بھی متاثر

ایران تقریباً ایک ماہ سے جاری مظاہروں سے نمٹ رہا ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد خصوصاً خواتین مہسا امینی کی موت کے بعد ملک میں لباس کے حوالے سے رائج سخت قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

چلی کے دارالحکومت سینتیاگو میں خواتین ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مظاہرے میں شریک ہیں(اے ایف پی)

ایران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پھنسے ہوئے درجنوں بچے ہلاک اور سینکڑوں کو حراست میں لیا گیا جن میں سے کچھ کو ’نفسیاتی مراکز‘ میں رکھا گیا ہے۔

ایران تقریباً ایک ماہ سے جاری مظاہروں سے نمٹ رہا ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد خصوصاً خواتین مہسا امینی کی موت کے بعد ملک میں لباس کے حوالے سے رائج سخت قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک میں ایرانی ماہر ہولی ڈیگریس نے جمعے کو اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ایرانی نوجوان جمود سے مایوس اور ناراض ہیں اور اس کا آن لائن اظہار کرنے اور حکومت کی سرخ لکیر عبور کرنے سے نہیں ڈر رہے۔‘

مسلسل کئی دن سے نوجوان خواتین اور سکول کی طالبات نے سڑکوں پر نکل کر اور احتجاج کرتے ہوئے اپنے حجاب جلا ڈالے اور اپنے بالوں کو کاٹ ڈالا ہے۔ نوجوان اور خواتین ’عورت کی آزادی‘ اور ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے دکھائی دیئں۔

ماضی میں احتجاجی تحریک میں شامل کئی نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قیمت ادا کی ہے تاہم امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ’ہرانا‘ (ایچ آر اے این اے) نے ایران میں مظاہروں کے دوران  کم از کم 18 نابالغ بچوں کی ہلاکت کو رپورٹ کیا ہے جن میں سے کچھ کی عمریں صرف 12 سال تھیں۔

لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے بچوں کی مجموعی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

ایران کی چلڈرن رائٹس پروٹیکشن سوسائٹی کے مطابق رواں ہفتے کم از کم 28 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں بہت سے پس ماندہ صوبے سیستان بلوچستان سے تعلق رکھتے تھے۔

تہران میں قائم گروپ نے کہا کہ کئی خاندانوں کو ان کے قیدی بچوں کے بارے میں ’اندھیرے‘ میں رکھا جا رہا ہے اور یہ کہ ان کے مقدمات مناسب قانونی مدد کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے وکیل حسن رئیسی نے کہا کہ گرفتار کیے گئے کچھ بچوں کو منشیات کے بالغ مجرموں کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

بدھ کو لندن سے کام کرنے والی ویب سائٹ ایران وائر نیوز کے ذرائع ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بچوں کے لیے ’انتہائی تشویش ناک‘ صورت حال ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق: ’18 سال سے کم عمر کے کسی بھی فرد کو 18 سال سے زیادہ عمر کے کسی بھی مجرم کے ساتھ نہیں رکھا جانا چاہیے۔ یہ ایک قانونی تقاضا ہے کوئی سفارش نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ 12 سے 13 سال اور 18 سے 19 سال کی عمر کے تقریباً 300 لوگ پولیس کی حراست میں ہیں۔‘

مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں میں نیکا شکرامی اور سرینا اسماعیل زادہ شامل ہیں یہ دو 16 سالہ لڑکیاں تھیں جن کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں موت نے ایران اور دنیا بھر میں غم کی لہر دوڑا دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے وزیر تعلیم یوسف نوری نے بدھ کو اصلاح پسند شارگ اخبار کو بتایا کہ احتجاج کرنے والے بچوں کو سڑکوں اور کلاس رومز کے اندر سے بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے گرفتار کیے گئے سکول کے بچوں کی تعداد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا: ’وہ اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ میں صحیح نمبر نہیں دے سکتا۔‘

نوری نے کہا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو ’نفسیاتی مراکز‘ میں رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد انہیں ’سماج مخالف کردار‘ بننے سے روکنا ہے جہاں ان کی بحالی اور اصلاح کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے پیر کو کہا کہ انہیں ایران میں ’بچوں اور نوجوانوں کی ہلاکت، ان کو زخمی کرنے اور حراست میں لیے جانے‘ کی رپورٹس پر انتہائی تشویش ہے۔

ایرانی نوجوانوں میں مقبول سمارٹ فون ایپس انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود انٹرنیٹ سے واقف نوجوان اب بھی اپنے احتجاج کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

انہوں نے سڑکوں پر بھی نئے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔

مظاہروں کے لیے نکلنے والے نوجوان اب ماسک اور ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ ٹریک ہونے سے بچنے کے لیے فون ساتھ نہیں رکھتے اور اگر ان کے لباس پر پینٹ بالز کے نشانات ہوں تو انہیں تبدیل کرنے کے لیے اضافی کپڑے لے جاتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز پینٹ بالز کو بعد میں مظاہرین کی شناخت کے لیے استعال کرتی ہیں۔

پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر علی فداوی نے پانچ اکتوبر کو ایرانی میڈیا کو بتایا کہ حالیہ مظاہروں میں گرفتار کیے گئے افراد کی اوسط عمر 15 سال تھی۔

علی فداوی نے خبر رساں ادارے ’مہر‘ کو بتایا کہ ’گرفتار کیے گئے کچھ نوعمروں اور نوجوانوں نے اپنے اعترافی بیانات میں سڑکوں پر ہونے والے فسادات کو ویڈیو گیمز سے تشبہہ دی ہے۔‘

ویڈیو گیمز کے حوالے سے تشویش کی بازگشت دیگر حکام کی جانب سے بھی سنائی دی ہے۔

اخلاقی پولیس سے منسلک ایک صوبائی تنظیم کے سربراہ عالم ابو الفضل احمدی نے رواں ماہ کہا کہ ایران کے دشمن ملک کے نوجوانوں کو ’کچھ ویڈیو گیمز کے ذریعے گمراہ کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا