کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟

سیاسی بیانیہ ہو یا صحافتی، بلوچستان کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ کیا اجتماعی زندگی کی فیصلہ سازی پر ان کا کوئی حق نہیں؟

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 28 اکتوبر، 2022 کو لاہور میں لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے (روئٹرز)

اس کالم کو مصنف کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔


عمران خان صاحب کا لانگ مارچ لاہور سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے؟ نئے انتخابات کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اس مارچ کے ہمراہ ہے کہ کیا پاکستان صرف جی ٹی روڈ کا نام ہے؟

اجتماعی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق صرف لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، جہلم، اور راولپنڈی  وغیرہ  کی آسودہ حال اشرافیہ کو ہے یا ان  کے تعین میں کوئٹہ، تربت، خضدار، لورا لائی، نوشکی، ژوب، خاران، لسبیلہ، پشین، آواران، کوہلو، چاغی اور قلات جیسے شہروں کا بھی کوئی حق ہے؟

فرض کریں عمران خان کے ساتھ ایک جم غفیر نکل آتا ہے، لاکھوں کا ایک سمندر۔

تب بھی اس سوال کی معنویت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا جی ٹی روڈ کے شہریوں کو بلوچستان کے دور افتادہ شہروں کے مکینوں پر کوئی فضیلت حاصل ہے کہ قومی زندگی کے فیصلے انہیں لاتعلق رکھ کر جی ٹی روڈ پر کر لیے جائیں؟

عمران خان کے لانگ مارچ کا مطالبہ اگر جی ٹی روڈ یا کے پی سے متعلق ہوتا تو یہ الگ بات تھی لیکن وہ ایک ایسا مطالبہ لے کر نکلے ہیں جس کا تعلق پورے پاکستان سے ہے۔

پاکستان اگر ایک وفاق ہے اور یہاں اکثریت کی آمریت کا اصول رائج نہیں تو ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ بلوچستان کو یکسر نظر انداز کر کے کوئی بھی فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

بلوچستان ہماری مفتوحہ ریاست نہیں، نہ وہ ہماری کالونی ہے کہ پنجاب کے چند شہر اور کے پی کے اہل  سیاست مل کر ایک فیصلہ کریں اور بلوچستان سے کہا جائے وہ سنے اور اطاعت کرے۔

بلوچستان وفاق پاکستان کی ایک اکائی ہے۔ محض آبادی کم ہونے کی وجہ سے اسے یوں نظر انداز کیا جانا ایک قومی المیہ ہے جو ایک عرصے سے ہر معاملے میں روا رکھا جا رہا ہے۔

یہ نزاکت ہمیں جتنی جلد سمجھ آجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ بلوچستان غیر محسوس طریقے سے قومی دھارے سے کٹتا جا رہا ہے چونکہ اس کی آبادی کم ہے اور اس کی قومی اسمبلی کے کل حلقوں کی تعداد صرف 16 ہے جب کہ صرف لاہور میں قومی اسمبلی کے آٹھ حلقے ہیں اس لیے اسے ہر اہم معاملے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

 سیاسی قیادت بلوچستان جانا اور وہاں کے عوام کو اعتماد میں لینا وقت اور وسائل کا زیاں سمجھتی ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہاں معاملہ محض آبادی یا چند نشستوں کا نہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ وفاق کی ایک اکائی کو قومی دھارے سے دور کر دیا گیا ہے۔

اجتماعی زندگی میں کہیں بھی کوئی فیصلہ ہو رہا ہو، سوتیلا پن بلوچستان کے وجود میں نشتر کی طرح اتر جاتا ہے۔       

یہ قومی سیاسی قیادت ہوتی ہے جو وفاق کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے لیکن ہماری قیادت بلوچستان کو ایک اکائی کی بجائے قومی اسمبلی کے صرف 16 حلقے سمجھتی ہے۔

اب اتنے سے حلقوں کے لیے کون وہاں جائے اور وہاں کی خاک چھانے۔

چنانچہ قومی سیاسی قیادت کی جانب سے برائے وزن بیت کبھی کوئی جلسہ ہوتا بھی ہے توصرف کوئٹہ میں۔ باقی کا صوبہ عملاً اجنبی بن چکا۔

سیاسی بیانیہ ہو یا صحافتی، بلوچستان کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔ 

ٹی وی چینلز کی بارات اتری پڑی ہے لیکن بلوچستان سے کوئی ٹاک شو نہیں ہوتا۔

بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں کو ٹاک شوز میں بہت کم بلایا جاتا ہے اور جب بلایا بھی جاتا ہے تو کسی قومی موضوع پر نہیں بلکہ وہاں کے کسی معاملے کے تزویراتی پیرائے میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کیا اجتماعی زندگی کی فیصلہ سازی پر ان کا کوئی حق نہیں؟

یہ بات درست ہے کہ لانگ مارچ جیسی سرگرمی میں بلوچستان کے دور افتادہ شہروں کے لوگوں کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ناممکن نہیں۔

مولانا فضل الرحمن کے مارچ میں ہم نے دیکھا کہ بلوچستان سے بہت سارے قافلے شریک ہوئے۔

اگر مولانا یہ کام کر سکتے ہیں تو عمران کیوں نہیں کر سکتے۔ عمران تو قومی سطح کے رہنما ہیں۔

تاہم مشکلات جو بھی ہوں، یہ  سیاسی قیادت کا فرض ہے وہ اس کا کوئی متبادل تلاش کرے۔ اور نہیں تو کم از کم یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہاں کی قیادت بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن عمران خان اگر راولپنڈی کے شیخ رشید، جہلم کے فواد چوہدری اور ملتان کے شاہ محمود قریشی کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک قومی معاملے کی صورت گری کرنا چاہیں گے تو یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ بلوچستان کہاں ہے؟

عمران خان ایک مقبول رہنما ہیں۔ ان کے ناقدین بدمزہ نہ ہوں تو میں کہوں گا کہ غیر معمولی طور پر مقبول رہنما۔

اب اگر ایسا رہنما بھی وفاق کی ایک اکائی کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی شعوری تدبیر نہ کرے تو یہ ایسا المیہ ہے جو بھلے جی ٹی روڈ کے اطراف کسی کو نظر نہ آرہا ہو لیکن اس کی سنگینی بہت دور رس ہو سکتی ہے۔

اس غیر سنجیدہ طرز سیاست میں، اب یہ غیر اہم ہوتا جا رہا ہے کہ کون آیا اور کون گیا۔

وہی منیر نیازی والی بات کہ مسلسل شکست دل نے وہ بے حسی طاری کر دی ہے کہ اب کسی کے جانے سے کوئی غم نہیں ہوتا ( نہ آنے سے خوشی)۔

یہاں اب کسی کو کسی پر کوئی اخلاقی برتری نہیں۔ جزوی تنوع کے ساتھ سب کا نامہ اعمال ایک جیسا ہے۔

یہ البتہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں بلوچستان نام کی وفاقی اکائی کو ہم نے کہاں کھڑا کر دیا ہے؟ 

لانگ مارچ کے نتائج سے کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ