پاکستان سے تعلقات کی بحالی ’ڈو مور‘ سے مشروط: وائٹ ہاؤس اہلکار

وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن میں ملاقات سے ایک دن قبل وائٹ ہاؤس کے ایک نامعلوم عہدیدار کی جانب سے اس دورے سے متعلق چند صحافیوں کو ٹیلی فونک بریفنگ کا احوال

خارجہ اور سفارتی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایسا بیان اس دورے سے امریکہ کی توقعات کی کہانی سنا رہا ہے (تصاویر: اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن میں ملاقات سے ایک دن قبل وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے اس دورے سے متعلق چند صحافیوں کو ٹیلی فونک بریفنگ دی، جس میں مذکورہ عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے دورے میں ان پر افغان امن عمل میں ٹھوس کردار اور ان کی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر دباؤ ڈالا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس کے مذکورہ ’نامعلوم‘ عہدیدار کی جانب سے اتوار کی رات دی جانے والی بریفنگ میں کہا گیا کہ دونوں سربراہان کی ون آن ون ملاقات کے بعد وفود کی سطح پر بات چیت اور ظہرانہ ہوگا، جس میں امریکی کابینہ کے حکام بھی شریک ہوں گے۔ 

اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کو موصول پریس بریفنگ کے متن کے مطابق مذکورہ عہدیدار نے واضح کیا: ’پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تجدید کے دروازے کھلے ہیں، اگر پاکستان دہشت گرد جہادی تنظیموں کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے۔‘

اس بیک گراؤنڈ بریفنگ میں چار بھارتی صحافیوں سمیت آٹھ صحافیوں کے سوالات شامل تھے۔ حیران کُن طور پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورے سے متعلق دی جانے والی اس بریفنگ میں ایک بھی پاکستانی امریکی صحافی موجود نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ پاکستان کے لیے موقع ہےکہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں امن بحال کروائے۔‘

بریفنگ میں بھارتی صحافیوں نے حسبِ معمول دہشت گردی اور کالعدم جیش طیبہ کے سربراہ حافظ سعید سے متعلق سوالات پوچھے۔

حافظ سعید کی گرفتاری سے متعلق وائٹ ہاؤس عہدیدار نے کہا کہ ’یہ گرفتاری پہلی بار نہیں ہے۔ 2001 سے لے کر اب تک پاکستان سات بار حافظ سعید کو گرفتار کر چکا ہے لیکن بعد میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان سے ٹھوس کارروائی چاہتے ہیں۔ اس لیے امریکہ تمام حالات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔‘

روسی خبر رساں ادارے اور بلوم برگ کے صحافیوں نے سوال کیا کہ ’کیا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر بھی بات چیت کی جائے گی؟‘

اس پر وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے جواب دیا کہ ’شکیل آفریدی ہمارے ہیرو ہیں کیونکہ انہوں نے القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں امریکہ کی مدد کی ہے۔ وہ پاکستانی جیل میں ہیں اور ہم اُس ملک کے قوانین اور عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن یہ دیکھا جائے گا کہ شکیل آفریدی کے ساتھ جیل میں کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’شکیل آفریدی کے معاملے پر پاکستان حکام سے بات کی جائے گی۔‘

کولیشن سپورٹ فنڈ کی بحالی کے حوالے سے امریکی عہدیدار نے کہا کہ ’ابھی تک اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا گیا۔ شاید سکیورٹی میٹنگ میں قواعد و ضوابط کی شرائط (ٹی او آرز) طے ہونے کے بعد اس بارے میں کوئی فیصلہ ہو لیکن ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘

ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے واضح کیا کہ ’پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا تعاون کافی نہیں ہے، پاکستان مزید تعاون کرے۔‘

پاکستان میں آزادی صحافت پر پابندیوں پر تخفظات

وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان میں میڈیا پر جو پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، امریکہ کو اُس پر تخفظات ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بے شک پاکستانی میڈیا کے خدوخال مختلف ہیں لیکن وہاں صحافیوں پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں جو ناقابل قبول ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت سے میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ 

’نامعلوم عہدیدار کی بریفنگ کا مقصد دورے کو سبوتاژ کرنا ہے‘

سابق سفیر عبد الباسط نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملاقات سے قبل ایک نامعلوم عہدیدار کی وائٹ ہاؤس سے میڈیا کو بریفنگ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی میٹنگ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے اور یہ واضح ہے کہ پاکستان مخالف عناصر دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ مثبت پیش رفت سے خائف ہیں۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ’صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان دونوں اس موقع کا فائدہ اُٹھائیں گے اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر نئی شروعات کریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سفارت کاری میں سب ممکن ہے۔ امید ہے دونوں سربراہان وائٹ ہاؤس کے اس ’نامعلوم‘ عہدیدار کو حیران کر دیں گے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پریس بریفنگ ایک رائے قائم کرنے کے لیے دی گئی ہے کہ پاکستان کے خلاف چارج شیٹ بناکر اسلام آباد کی طلبی کی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا تو یہاں سوال اُٹھتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں بھارتی لابی پاکستان کے خلاف فعال ہو چکی ہے۔ یہ ایک پلانٹڈ سٹیج ڈرامہ ہے جس کا مقصد دورے کو متاثر کرنا ہے۔‘

خارجہ اور سفارتی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایسا بیان اس دورے سے امریکہ کی توقعات کی کہانی سنا رہا ہے۔

واشنگٹن میں مقیم تجزیہ نگار ملک سراج اکبر کہتے ہیں کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی منفرد شخصیت کومد نظررکھتے ہوئے دونوں ملکوں میں اس ملاقات کے حوالے سے دعاؤں سے کام لیا جارہا ہے کہ یہ کسی بدمزگی یا توہین آمیز ٹویٹ پر ختم نہ ہو۔ 

صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل عمران خان نے واشنگٹن ڈی سی میں 20 ہزار کے لگ بھگ پاکستانی امریکن شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ’وہ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات میں پاکستانی قوم کو مایوس اور شرمندہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی بیرونی قوت کے سامنے جھکیں گے۔‘ انھوں نے اپنی تقریر میں امریکی صدر کو ’صدر ٹرمپ‘ کے بجائے محض ڈونلڈ ٹرمپ کہہ کر پکارا۔ 

برطانیہ میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر اور واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اکبر ایس احمد کا کہنا ہے کہ ’اس وقت امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت صرف اور صرف افغانستان کے تناظر میں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اہم ترین تو نہیں البتہ ایک اہم فریق سمجھتا ہے۔ گذشتہ ایک سال سے دونوں ممالک کے تعلقات بدتر ہوگئے ہیں اور خود پاکستان کو نہیں معلوم کہ وہ کس طرح امریکہ کی شکایات کا ازالہ کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان