وزیر آباد واقعے پر سات اہم عوامی سوالات

سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ان سوالات کے جواب تلاش کر کے عمران خان پر حملے کے ذمہ داروں تک باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔

چار نومبر 2022 کی اس تصویر میں تحقیقاتی ادارے کے اہلکار حملے کا نشانہ بننے والے کنٹینر کا جائزہ لیتے ہوئے(اے ایف پی)

تین نومبر کو پنجاب کے علاقے وزیرآباد میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کے بارے میں صارفین کا کہنا ہے کہ ان سوالوں کو اگر شامل تفتیش کیا جائے تو حملے کے ذمہ داروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔

متذکرہ واقعے کی مختلف ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پولیس کے مطابق اب تک تین افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔

ویڈیوز میں نظر آنے والے ایک شخص کی گرفتاری کے فوری بعد سوشل میڈیا اور سرکاری ٹیلی وژن پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کی ویڈیو بھی دکھائی گئیں جس نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔

عوامی تجزیوں، مشاہدات، اور سوالات کے پس منظر میں نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ واقعے کے عینی شاہدین اور سربراہ تحریک انصاف عمران خان کا بھی کہنا ہےکہ فائرنگ مختلف اطراف اور مختلف ہتھیاروں سے ہوئی ہے۔

لانگ مارچ کے ڈی جے حمزہ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’جس کو میں نےدیکھا اس کے پاس بڑی گن تھی، اور وہ اونچائی پر کھڑاتھا، جبکہ ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کے پاس پستول ہے اور اس کو میں نے نہیں دیکھا۔‘

صحافی فصیح احمد نے بھی واقعے کی شام اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ اپنی گاڑی میں عمران خان کے کنٹینر کے پیچھے پیچھے جارہے تھے۔ ’جب فائرنگ ہوئی تو میرے ڈرائیور نے قریبی ایک پلازہ کی دوسری منزل سے کنٹینر کی جانب تواتر سے گولیاں چلتے ہوئے دیکھیں۔‘

سات اہم عوامی سوالات

تین نومبر کے واقعے پر ٹوئٹر اور فیس بک پر سامنے آنے والی اور زیادہ  وزن رکھنے والی نکات کوانڈپینڈنٹ اردو نے اکھٹا کر کے ایک ہی صفحے پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے، لیکن اختصار کی خاطر یہاں سات اہم نکات کو لکھا جا رہا ہے۔

ٹویٹر صارف ’پشتون اونلی‘ لکھتے ہیں کہ ’سٹیل کو صرف اعشاریہ پانچ صفر سنائپر سے ہی چیرا جا سکتا ہے جو کہ سٹیل کو چیرنے کے بعد کئی ذروں میں بٹ گیا یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو پیروں میں کئی زخم آئے۔ دوسری جانب، AK47 یا گلوک ایم ایم سٹیل میں سوراخ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا ’گلوک پستول والا شخص محض توجہ ہٹانے کے لیے تھا، بندوق سے فائرنگ کرنے والا خوف وہراس پھیلانا چاہ رہا تھا، جبکہ سنائپر والا شخص حقیقی نشانے کے لیے بیٹھا تھا، تاہم ناکام ہوا۔‘

مہوش قماس خان لکھتی ہیں ’قاتل نے بیان دینے سے پہلے خود کو ایسا ظاہر کیا کہ اس نے سہی مار کھائی ہے، لیکن چھ کے چھ بٹن سہی سلامت ہیں، ایک بٹن بھی نہیں ٹوٹا، اور بٹن آرام سے کھل بھی گئے ہیں۔‘

اسی طرح سوشل میڈیا صارفین نے ہی ایک اور سوال اٹھایا کہ ’پولیس نے ابھی تک حملہ آور سے نہیں پوچھا کہ اس نے پانچ لاکھ روپے کی مالیت کا پستول کہاں سے لیا۔ اس کی گولیاں کہاں سے آئیں، اس نے پستول چلانا کہاں سے سیکھا، تفتیش کے سب سے اہم سوال تو یہ ہیں۔‘

اسی معاملے پر پانچ نومبر کو انڈپینڈنٹ اردو کی  شائع کی گئی ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ملزم نوید مہر کے ہمسایوں کے مطابق، وہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے والا شخص تھا اور کچھ عرصہ قبل ننھیال سے قرض پیسے لے کر سعودی عرب مزدوری کے لیے گیا تھا، لیکن ناکام لوٹ آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’وزیر آباد کےضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نے تصدیق کرلی ہے کہ جائے وقوعہ سے نہ صرف پستول بلکہ ’ایس ایم جی‘ کے خول برآمد ہوئے ہیں۔ اب تو واضح ہوگیا ہے کہ ایک نہیں مختلف مقامات سے تاک کر نشانہ لیا گیا۔‘

ایک صارف ماہ نور نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایک قاتل جس کا بیان کچھ ہی منٹ بعد لیا گیا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ عمران خان بچ گئے ہیں۔‘

سوشل میڈیا صارفین نے ایک مبینہ حملہ آور کی گرفتاری کے فوراً بعد اس کی ویڈیو بنانے اور شئیر کرنے کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور کہا گیا کہ ’ایک ہائی پروفائل کیس کے ملزم کی ویڈیو اس قدر جلدی کیوں سامنے لائی گئی، حالانکہ عام حالات میں ایسے ملزموں کو میڈیا سے دور رکھا جاتا ہے۔‘

صارفین نے سوال اٹھایا کہ ’کیا ایسے ملزم کی ویڈیو منظر عام پر لانا غیر پیشہ ورانہ نہیں ہے؟ یہ کیس کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اس قدر حساس معلومات کون جاری کررہا ہے، کیا یہ پنجاب پولیس کررہی ہے یا کوئی اور؟‘

وزیرآباد واقعے پر ملزم کی پہلی ویڈیو منظرعام پر آنے پر سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے مختلف سوالات سامنے آنے کے بعد ملزم کی ایک اور ویڈیو سامنے لائی گئی ، جس میں وہ مزید وضاحت کرتا ہے کہ دراصل ’تمام گولیاں اس نے چلائی تھیں، جن کے جواب میں عمران خان کے گارڈز نے بھی فائرنگ کی۔‘

اس ویڈیو کے بعد مزید سوالات نے جنم لیا کہ ایک ہائی پروفائل کیس کے ملزم کی مسلسل ویڈیوز کون اورکیوں بنوا رہا ہے، جب کہ عام حالات میں ایسے ملزموں کے چہرے پر کالا نقاب چڑھا دیا جاتا ہے۔

کالم نگار شمع جونیجو نے دوسری ویڈیو پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی، جب پہلی ویڈیو کے بعد متعلقہ پولیس سٹیشن کو معطل کر دیا گیا، تو پھر کون اب بھی یہ بیانات فلم بند کروا رہا ہے اور میڈیا میں جاری کروا رہا ہے؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان