عمران خان پر حملے میں کون سا اسلحہ استعمال کیا گیا؟

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر گجرانوالہ کے اللہ والا چوک کے قریب فائرنگ میں استعمال ہونے والے اسلحے کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور اس پر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔

حملے کی فوٹیج جس میں ابتسام نامی شخص بظاہر حملہ آور کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے، ملزم کی شناخت نوید کے نام سے کی گئی ہے (سوشل میڈیا فوٹیج)

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر پنجاب کے ضلع گجرانوالہ میں وزیرآباد کے اللہ والا چوک کے قریب فائرنگ میں استعمال ہونے والے اسلحے کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں اور اس پر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔

اگرچہ پولیس کی جانب سے باقاعدہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی مگر ٹوئٹر پر متعدد لوگوں نے حملہ آور کے ہاتھ میں پستول کو گلوک (Glock) کے طور پر شناخت کیا ہے۔

دفاعی ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ اشفاق حسن (ستارۂ امتیاز) نے بھی اس پستول کو گلوک کے طور پر شناخت کیا ہے اور اس کا ماڈل گلوک 26 بتایا ہے۔

ٹیلی ویژن اینکر معید پیرزادہ نے بھی ایک ٹویٹ میں پستول کو گلوک بتایا ہے، تاہم انہوں نے Glock کی بجائے Clock لکھا جس پر ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

گلوک کون سا پستول ہے اور کہاں سے آتا ہے؟

گلوک آسٹریا کی کمپنی ہے اور اس کے بنائے گئے پستول اپنے معیار اور پائیداری کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔

عمران خان پر حملے میں مبینہ طور پر استعمال ہونے والا پستول گلوک 26 ’گن یونیورسٹی‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق 1995 میں متعارف کروایا گیا تھا اور یہ دنیا بھر کے پولیس اداروں کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔

یہ تمام پستول نو ملی میٹر کے ہوتے ہیں۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق گلوک 26 بےحد پائیدار پستول ہے اور اس کا ریویو کرنے والے اسلحے کے ماہر بین کونی کے مطابق اسے ٹیسٹ کرتے ہوئے کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

کیا یہ پستول آٹومیٹک تھا؟

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اسلحے کے ایک ماہر سے بات کی۔

ارشد آفریدی پشاور میں اسلحے کے قانونی کاروبار سے وابستہ ہیں اور مختلف اقسام کے اسلحے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عمران خان پر حملے کے واقعے کی جو ویڈیو انہوں نے دیکھی ہے اس میں واضح طور پر نظر نہیں آ رہا کہ آیا واقعی یہ گلوک ہی تھا، البتہ یہ پستول پاکستان میں عام دستیاب ہے۔

ارشد آفریدی نے بتایا کہ بیرون ممالک سے جو بھی اسلحہ برآمد کیا جاتا ہے، وہ سب نیم خودکار (سیمی آٹومیٹک) ہوتا ہے یعنی قانونی طور پر پاکستان میں کوئی بھی اسلحہ آٹومیٹک ساخت کا نہیں ہوتا بلکہ سیمی آٹومیٹک ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’مشہور پستولوں میں سے گلوک، بیریٹا اور زیگان کے علاوہ اور بھی بہت ہیں، اور یہ سارے سیمی آٹومیٹک ہوتے ہیں جس کی قیمت تین لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک ہے۔‘

گلوک ملتا کہاں سے ہے اور اس کی قیمت کیا ہے؟

ارشد کے مطابق اس قسم کا اسلحہ بیرون ملک سے برآمد کیا جاتا ہے اور تمام تر قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد مارکیٹ میں بھجوایا جاتا ہے۔

ارشد آفریدی نے بتایا کہ امپورٹڈ گلوک کی قیمت پاکستان میں تین لاکھ روپے سے سات لاکھ روپے تک ہے جبکہ مقامی سطح پر بننے والا گلوک 20 ہزار سے 40 ہزار تک مل جاتا ہے۔

ارشد کے مطابق گلوک کی پھر مختلف اقسام ہیں، جو مختلف فیچرز کے ساتھ آتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گلوک 17 کی قیمت تین لاکھ سے شروع ہوتی ہے اور اسی طرح قیمتیں ماڈل اور جنریشن کے حساب سے بڑھ جاتی ہے۔

کراچی میں ’گن ٹریڈر‘ نامی کمپنی جو اسلحے کے کاروبار سے وابستہ ہے، ان کی ویب سائٹ پر گلوک 19 جنریشن فائیو کی قیمت سات لاکھ 40 ہزار روپے ہے۔

سیمی آٹومیٹک پستول کو آٹومیٹک کیسے بنایا جا سکتا ہے؟

ارشد آفریدی نے بتایا کہ کسی بھی پستول یا دیگر اسلحے کو سیمی آٹومیٹک سے فل آٹومیٹک بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور پشاور کے کوہاٹ روڈ اور درہ آدم خیل میں ایک معمولی سا پرزہ لگا کر سیمی آٹومیٹک کو آٹو بنایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’اوریجنل گلوک یا کسی بھی قیمتی پستول کو کوئی بھی آٹومیٹک میں تبدیل نہیں کرتا کیونکہ یہ مہنگا پستول ہوتا ہے اور آٹو بنانے سے یہ غیر قانونی بن جاتا ہے، اور کوئی بھی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر آپ کے ساتھ دیکھ لیں تو قانونی طور پر اس کو ضبط کیا جاتا ہے۔‘

تاہم پشاور کے کوہاٹ روڈ اور درہ آدم خیل میں بھی پستول بنائے جاتے ہیں اور ایک پستول کی قیمت 15 ہزار سے 20 ہزار تک ہے اور کوئی بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد اس کو خرید سکتا ہے۔

ارشد نے بتایا: ’پاکستان میں تو یہ کاروبار بہت عام ہے۔ درہ آدم خیل سمیت پشاور کے کوہاٹ روڈ میں اسلحہ بنانے کے کارخانے موجود ہیں اور آن لائن لوگ ملک کے کسی بھی حصے سے آرڈر دے کر اپنے لیے اسلحہ منگوا سکتے ہیں۔ خریدار کو اسلحہ آن لائن ویڈیو کے ذریعے چیک بھی کروایا جاتا ہے۔‘

کیا پستول برسٹ فائر کر سکتا ہے؟

اس کے جواب میں ارشد کا کہنا تھا کہ بالکل کر سکتا ہے، کیونکہ اسلحے کو آٹومیٹک بنانے کے ساتھ ساتھ میگزین کے سائز کو بڑھایا جاتا ہے، اور وہ برسٹ کے قابل ہو جاتا ہے اور آٹو بنانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ برسٹ فائر کر سکے۔

انہوں نے بتایا: ’جتنا میگزین بڑھائیں گے، تو گولیوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے اور پستول برسٹ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور یہ بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 30 بور کا پستول بہت عام ہے اور ہر ایک پستول کی فائرنگ کی صلاحیت اس کی میگزین کے مطابق ہوتی ہے یعنی جتنا میگزین بڑا ہو گا اتنی فائرنگ بھی زیادہ ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’30 بور کے ساتھ سات گولیوں والا میگزین آتا ہے اور سب سے سستا پستول ہے۔ گلوک میں 13، 15 اور 17 گولیوں والا میگزین بہت عام ہے لیکن اب تو 40 اور 50 گولیوں کا میگزین بھی بنایا جاتا ہے۔

ارشد آفریدی نے گولیوں کی قیمت کے بارے میں بتایا کہ پاکستان میں زیادہ عام 30 بور، نائن ایم ایم اور میکاروف کی گولیاں دستیاب اور جب آپ نے پستول کو آٹو بنایا تو ایک ٹرگر کے ساتھ تمام گولیاں فائر کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’جتنا میگزین بڑا ہو گا، اتنا ہی برسٹ زیادہ ہو گا کیونکہ جتنی زیادہ گولیاں ہوں گی، برسٹ بھی اتنا ہی زیادہ تیز ہو گا کیونکہ گولیوں کو فائر کرنے میں وقت زیادہ لگے گا۔ سیمی آٹو میٹک یا آٹو میٹک، گولیوں کی قیمت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں میں ایک ہی قسم کی گولیاں استعمال کی جاتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان