لیاقت علی خان سے عمران خان تک: سیاسی رہنماؤں پر خونی حملے

سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر حملے کے بعد سے پاکستان میں سیاسی شخصیات پر حملوں کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تین نومبر 2022 کو پنجاب کے ضلع وزیرآباد میں کنٹینر پر فائرنگ سے زخمی ہوئے (روئٹرز)

پاکستانی سیاست کے باب میں ایک ایسا باب بھی ہے، جس میں سیاسی شخصیات کے اجتماع پر حملوں کی تاریخ درج ہے، جن ان میں ایک صدر، تین وزرائے اعظم اور ایک چیف جسٹس پاکستان پر حملہ بھی شامل ہے۔

بےنظیر بھٹو وہ واحد سابق وزیراعظم تھیں جن پر اڑھائی ماہ کے اندر اندر دو حملے ہوئے۔ ایک حملے میں فائرنگ سے ان کی جان ہی چلی گئی۔

سیاسی اجتماعات میں قاتلانہ حملے کے علاوہ سابق صدر اور دو وزرائے اعظم حملے میں بال بال بچے۔

دو وزرائے اعظم پر ایک ہی شہر اور ایک مقام پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ یہ دونوں وزرائے اعظم راولپنڈی میں کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں ہلاک ہوئے۔ ایک وزیراعظم جلسے کے دوران اور دوسرے جلسے کے اختتام پر گولی کا نشانہ بنے۔

ملکی تاریخ میں کسی جلسے یا سیاسی اجتماع پر پہلا قاتلانہ حملہ قیام پاکستان کے چار برس ہوا۔ جب ملک کے  پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان پر گولی چلا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 16 اکتوبر 1951 کو کمپنی باغ میں پیش آیا۔ وزیراعظم لیاقت علی پر اس وقت گولی چلائی گئی جب وہ جلسے سے خطاب  کر رہے تھے۔

 سابق صدر جنرل ایوب خان ملک کے پہلے صدر تھے جن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ صدر جنرل ایوب کو آٹھ نومبر 1968 کو پشاور یونیورسٹی میں خطاب کے دوران فائرنگ کر کے جان سے مارنے کی کوشش کی گئی تاہم صدر ایوب اس قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔

سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو آٹھ برس کی جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر 2007 کو واپس آئیں تو ان کے استقبالیہ جلوس پر خودکش حملہ ہوا۔ یہ دھماکہ بےنظیر بھٹو کے ٹرک سے کچھ فاصلے پر ہوا۔ بےنظیر بھٹو تو اس انتہائی خطرناک حملے میں محفوظ رہیں، لیکن  جلوس میں 139 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

لگ بھگ اڑھائی ماہ کے بعد 27 دسمبر 2007 کوسابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پر دوبارہ قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ یہ واقعہ راولپنڈی کے لیاقت باغ  میں ایک جلسے کے فوری بعد ہوا۔ بےنظیر بھٹو جلسے سے خطاب کے بعد واپس جا رہی تھیں، جب وہ قاتلانہ حملے کا نشانہ بنیں اور جان کی بازی ہار گئیں۔

بےنظیر بھٹو لیاقت علی خان کے بعد دوسری وزیراعظم تھیں جو کمپنی باغ میں ایک جلسے میں ہلاک ہوئیں۔ لیاقت علی خان کی ہلاکت کے  بعد کمپنی باغ کا نام وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام پر لیاقت باغ رکھ دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وزیراعظم عمران خان بھی سیاسی سرگرمی کے دوران زخمی ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران تین نومبر 2022 کو پنجاب کے ضلع وزیر آباد میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس کے دوران عمران خان کے پاؤں میں گولی لگی۔ جبکہ ان کی جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید اور سابق سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے احمد چھٹہ سمیت 13 افراد زخمی ہوئے۔

2007 میں وکلا تحریک کے دوران اسلام آباد میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا تھا۔

 17 جولائی کی شام اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار میں ہونے والے وکلا کنونشن کے پنڈال کے قریب ہونے والے دھماکے میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری بال بال بچے تھے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی معطلی کے دوران ایک جلوس کی شکل میں وکلا کنونشن میں خطاب کے لیے جا رہے تھے اور ان کا قافلہ جلسہ گاہ سے کچھ فاصلے پر تھا جب پنڈال میں بم دھماکہ ہوا۔

اس دھماکے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔ اس بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے اسرار شاہ بھی اسی حملے میں شدید زخمی ہوئے اور اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئے۔

خبیر پختونخوا کے سینیئر وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر احمد بلور بھی ایک سیاسی سرگرمی کے دوران خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے۔ یہ خودکش حملہ 22 دسمبر 2010 کو ایک ریلی کے دوران ہوا۔

اس میں بشیر بلور کے علاوہ ریلی میں شریک دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے جبکہ بشیر احمد بلور کے بھائی غلام احمد بلور اس حملے میں محفوظ رہے۔

خبیر پختونخوا میں ہی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ بھی دو سیاسی اجتماعات کے دوران خود کش حملے میں محفوظ رہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر 2011 میں دو دنوں کے دوران دو حملے ہوئے۔ پہلا ضلع صوابی میں مولانا فضل الرحمٰن کے استقبالیہ جلوس پر ہوا جس میں مولانا تو محفوظ رہے لیکن حملے میں سات افراد ہلاک ہو گئے۔

اس سے پہلے چارسدہ میں بھی مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر اس وقت خود کش حملہ ہوا جب وہ جلسے سے خطاب کے لیے جا رہے تھے۔ اس حملے میں مولانا تو محفوظ رہے، تاہم پانچ پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

سابق وزیراعظم شوکت عزیز پر 30 جولائی 2004 کو ان کی انتخابی مہم کے دوران ایک قاتلانہ حملہ ہوا۔ شوکت عزیز فتح جنگ میں انتخابی مہم کے ایک جلسے سے واپس آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا۔ شوکت عزیز اس حملے میں نہ صرف محفوظ رہے بلکہ اسی حلقے سے رکن قومی اسمبلی بنے اور پھر وزیراعظم کے عہدے کے لیے چن لیے گئے۔

سیاسی اجتماع کے علاوہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف پر اس وقت حملے ہوئے جب وہ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔

سابق صدر جنرل مشرف پر  پہلا حملہ راولپنڈی کے جھنڈا چیچی پل پر ریموٹ کنٹرول بم سے کیا گیا تھا لیکن بم اس وقت پھٹ نہ سکا، جب گاڑیاں پل سے گزر رہی تھیں۔

دس دن بعد سابق صدر پرویز مشرف پر 25 دسمبر کو دوسرا حملہ کیا گیا اور انہیں خودکش حملے کے ذریعے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے میں صدر جنرل پرویز مشرف بال بال بچ گئے۔

نواز شریف پر بھی اس وقت حملہ ہوا جب وہ وزیراعظم تھے۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں وہ لاہور کے نواحی علاقے جاتی عمرہ میں واقعے اپنی رہائش گاہ کی جانب جا رہے تھے کہ ان کے راستے میں ایک پل کے نیچے رکھا گیا بم ان کی گاڑی گزرنے کے بعد پھٹا اور اس طرح وہ محفوظ رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان