سوئٹزر لینڈ کی ایک وادی جہاں بجلی کبھی آئی ہی نہیں

وادی میں بجلی لانے کے لیے ٹرانسفارمرز کی ضرورت تھی لیکن مقامی لوگوں کے پاس اس کے لیے پیسے نہیں تھے۔

پورے یورپ میں جب لوگوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ آنے والے موسم سرما میں بجلی کی قلت سے بچنے کے لیے وہ توانائی بچائیں، سوئٹزرلینڈ کی وادی بوونا بے فکر ہے، جہاں کبھی بجلی آئی ہی نہیں۔

جنوبی سوئٹزرلینڈ کے اطالوی بولنے والے ٹیکینو خطے میں دریائے بوونا کے ساتھ واقع یہ وادی یورپ کے پہاڑی سلسلے الپس میں ہے۔

پتھروں سے بنے گھروں پر مشتمل ان 12 بستیوں میں چند درجن رہائشی رہتے ہیں، سوائے موسم سرما کے، جب یہاں 10 سے بھی کم لوگ ہوتے ہیں۔

پہاڑی چوٹیوں پر واقع ڈیموں کی بدولت بہت زیادہ بجلی پیدا کرنے والا علاقہ ہوتے ہوئے بھی 11 بستیاں پاور گرڈ سے منسلک نہیں ہیں۔

وادی کے دامن میں واقع گاؤں سیویو کے ایک سابق مقامی کونسلر رومانو دادو نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: ’انہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد الپس کے شمالی حصے میں موجود سوئٹزرلینڈ کے جرمن بولنے والے علاقے کو بجلی فراہم کرنے کی غرض سے تعمیر کیا گیا تھا۔‘

رومانو دادو نے مزید بتایا: ’وادی میں بجلی لانے کے لیے ٹرانسفارمرز کی ضرورت تھی لیکن یہاں کے لوگوں کے پاس اس کے لیے پیسے نہیں تھے۔ وادی کی چوٹی پر واقع آخری بستی ہی یہ سہولت حاصل کر سکتی تھی۔‘

دادو کے مطابق جیسے جیسے دہائیاں گزرتی گئیں وادی کی آبادی تقریباً 500 سے گھٹ کر 50 سے بھی کم رہ گئی اور رہائشیوں نے بجلی کے گرڈ پر انحصار کرنے کی بجائے چھتوں پر شمسی پینل نصب کرنا سیکھ لیا۔

دیے اور موم بتیاں

یہاں کے رہائشی گیس کنستر، موم بتیاں اور تیل کے لیمپ بھی استعمال کرتے ہیں۔ رومانو کے سنگ تراش بھائی ٹیزیانو دادو نے کہا کہ اپنے کپڑے دھونے کے لیے ہم ہمیشہ کی طرح دریا پر جاتے ہیں۔

تقریباً 10 کلومیٹر (چھ میل) طویل اور 2500 میٹر سے زیادہ اونچائی تک بلند ڈھلوانوں سے گھری اس تنگ وادی نے صدیوں کے دوران کبھی کبھار خطرناک برفانی تودے، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ دیکھی۔

1970 کی دہائی تک اس علاقے میں موسم گرما کی چراگاہوں کی طرف موسمی نقل مکانی جاری رہی۔

الپائن کی تاریخ اور ثقافت کے ماہرین کے ایک گروپ اور یزونٹی الپینی سے تعلق رکھنے والی سونیا فورنیرا نے کہا کہ مارچ سے دسمبر کے آخر تک یہ خاندان اپنے جانوروں کے ساتھ وادی میں چلے جاتے اور کرسمس کے لیے واپس آتے۔

88 سالہ بائیسی ٹونینی نے اپنے گھر میں آگ سینکتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک مشکل لیکن ایک سادہ زندگی تھی۔‘

اتنی عمر کے باوجود، وہ سولر پینل سے بجلی کی فراہمی کی بدولت موسم بہار سے اکتوبر تک وہاں رہتی ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جدید معاشرے میں بجلی کا بہت زیادہ ضیاع ہے۔

وہ ٹیلی ویژن دیکھنے سے کہیں زیادہ رات کے مناظر سے لطف اندوز ہوتی ہیں، جو وادی میں ایک نایاب نظارہ ہے۔

میوزیم یا خواب؟

1987 میں شمسی پینل نصب کرنے والے 81 سالہ ایوو دادو نے بتایا: ’ہم بہت سادہ طریقے سے رہنے کے عادی ہیں اور ہمیں توانائی بچانے کا ڈر نہیں۔‘

ایک مصنف اور وادی کے چند ریستورانوں میں سے ایک کے مالک مارٹینو جیووانیٹینا نے اے ایف پی کو بتایا: ’شمسی پینل ایک جزوی حل ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا ماننا ہے کہ بجلی کی کمی اور پرانی عمارتوں کی تزئین و آرائش کے سخت قوانین وادی کو قریبی وادیوں کی طرح سیاحت کی طرف لانے کی بجائے بے آباد اور ’عجائب گھر‘ میں تبدیل کر رہے ہیں۔

آخری بستی سے ڈیموں تک کیبل کار کے علاوہ وادی بوونا میں سیاحوں کے لیے کوئی سیٹ اپ نہیں ہے اور یہاں موٹر ہومز کی پارکنگ پر پابندی عائد ہے۔

2020 کا سوئس انعام برائے ادب جیتنے والی ڈورس فیمنیس اس وادی میں پلی بڑھیں اور 20 سال کی عمر میں وہاں بکریاں پالتی تھیں۔ اب وہ اپنی کتابوں میں بوونا وادی کی داستان لکھتی ہیں۔

وہ اب مغربی سوئٹزرلینڈ کے جورا پہاڑوں میں رہتی ہیں اور ہر دو ماہ بعد ’اپنے بچپن کی اس حیرت انگیز جگہ‘ پر واپس آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’سوئٹزرلینڈ میں، ہمیں اب بھی جنگل اچھا لگتا ہے۔‘

لیکن انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس طرح کی جگہیں جدید زندگی کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ ماضی کی جگہ ہے۔ اب وہاں کوئی بھی رہنا نہیں چاہتا۔ یہ صرف ایک خواب ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا