اداروں کے اختیارات: کیا پی ٹی آئی دیگر جماعتوں سے بات کرسکتی ہے؟

شاہ محمود قریشی نے اداروں کے اختیارات سے متعلق پی ٹی آئی کے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا۔

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران شاہ محمود قریشی خوش گوار موڈ میں نظر آئے (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اداروں کے اختیارات کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت اس سلسلے میں دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرسکتی ہے۔

بدھ کو لاہور میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے غیر رسمی ملاقات میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے دیگر ملکوں میں ’ڈیپ سٹیٹ‘ موجود ہوتی ہے اور سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتی ہے، لیکن یہ مداخلت ایک خاص محدود سطح تک رہتی ہے۔

انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں سیاسی مخالفین سے مذاکرات کے بارے میں قدرے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت روکنے اور آئینی حدود تک محدود رکھنے کی غرض سے حکمران اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) سمیت سیاسی جماعتوں سے مل کر کام کر سکتی ہے۔

میڈیا ٹاک کے دوران شاہ محمود قریشی خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ ان کے ساتھ پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ اور پی ٹی آئی کے رہنما اور ٹکٹ ہولڈر جمشید اقبال چیمہ بھی موجود تھے۔

دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس حوالے سے مل کر کام کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

ماضی سے مثال لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ’ہم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کسی کی مدد سے ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے، لیکن انہی دو جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر بھی دستخط کیے، وہ الگ بات ہے کہ درمیان میں انہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی کی۔‘

شاہ محمود قریشی کے سیاسی حریفوں سے رابطوں کے امکانات پر مثبت رویے سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان کے رہنما مختلف بیانات دیتے ہیں جن سے پارٹی پالیسی کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سول بالادستی کی بات کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہمیشہ اداروں کے ساتھ تصادم سے گریز کیا، جبکہ اس وقت پی ٹی آئی ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن ہے۔‘

قمر زمان کائرہ نے مزید کہا کہ ان تمام باتوں کے باوجود اگر پی ٹی آئی صدق دل سے سویلین بالادستی اور سیاست میں اداروں کی عدم مداخلت کی قائل ہے اور اس حوالے سے دوسری جمہوری طاقتوں سے بات چیت کو تیار ہے تو سب سے پہلے اسے پاکستان کی جمہوری قوتوں کے ساتھ موجودہ بحران کے حوالے سے بات چیت شروع کرنا ہو گی تاکہ ان کی سنجیدگی کا اندازہ ہو سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے مسلم لیگ نواز کے چار سے زیادہ مرکزی رہنماؤں سے رابطے کیے، تاہم انہوں نے ٹیلیفون پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

شاہ محمود قریشی نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف کی تعیناتی سمیت بعض دوسرے ایشوز پر بھی اظہار خیال کیا۔

آرمی چیف کی تعیناتی

اس سوال کے جواب میں کہ لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے سے پہلے آرمی چیف کی تعیناتی کی صورت میں پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پی ٹی آئی کا ایجنڈہ ہی نہیں تھا۔

’یہ وزیراعظم کا اختیار ہے لیکن چونکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی پارلیمان میں نہیں ہے اور وزیراعظم پوری پارلیمان کی نمائندگی نہیں کر رہے اس لیے پہلے انتخابات ہوتے اور یہ اختیار جو بھی نئے وزیراعظم ہوتے وہ استعمال کرتے، لیکن اب اگر تعیناتی ہو جائے تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا اس لانگ مارچ کا صرف ایک نکاتی ایجنڈہ تھا اور وہ انتخابات کروانا تھا۔‘

شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کے ایجنڈے میں کسی تبدیل کو رد کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے کے بعد ان کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔

انتخابات سے متعلق وفاقی حکومت کے مستقل انکار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کچھ باتیں وقت پر چھوڑ دینا چاہیے اور وہ (پی ٹی آئی) اپنی کوشش کر رہی ہے۔

لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے فائرنگ سے زخمی ہونے کے بعد لانگ مارچ کی قیادت اب سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی کے کندھوں پر آگئی ہے۔ اپنے لیڈر سے قدرے نرم اور درمیانی رو اختیار کرنے والے شاہ محمود قریشی کے مارچ کو لیڈ کرنے سے کیا کوئی فرق پڑے گا؟ یہ سوال سب کے ذہنوں میں ہے۔

تاہم لانگ مارچ میں لوگوں کی کم تعداد سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میڈیا کو جلسوں اور لانگ مارچ میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جلسہ چند گھنٹوں کا ہوتا ہے، جس میں زیادہ عوام آتے ہیں، جبکہ لانگ مارچ ایک مسلسل عمل ہے، جس میں حاضرین کی تعداد وہ نہیں ہوتی جو جلسوں میں ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ مارچ میں لوگوں کا جوش و خروش اور شرکت قابل دید ہے۔

شاہ محمود قریشی نے واضح الفاظ میں اقرار کیا کہ عمران خان کے کنٹینر پر موجود نہ ہونے سے فرق پڑے گا، جو لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد کم ہونے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے ساتھ دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں جلسے کر چکے ہیں اور دونوں جلسوں میں عوامی شرکت کا واضح فرق تھا۔

جب ان سے مذاقاً دریافت کیا گیا کہ کیا انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ وہاں کوئی جلسہ کیا؟ تو شاہ محمود قریشی نے اپنے روایتی انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا: ’نہیں وہ تب چھوٹے تھے۔‘

مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ جلسے کے امکان سے متعلق دریافت کیے جانے پر انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا: ’پہلے بلاول اپنی سیاسی انٹرنشپ پوری کر لیں اس کے بعد دیکھیں گے۔‘

اسی خوشگوار گفتگو کے دوران جمشید اقبال چیمہ نے انہیں بتایا کہ عمران خان نے سینٹرل لیڈر شپ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جس پر شاہ محمود قریشی نے گفتگو سمیٹتے ہوئے میڈیا نمائندگان سے رخصت طلب کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست