معاشرے کے جسم میں اپنڈیکس

یہ اپنڈیکس اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی یادوں کے ذرے اپنے اندر پالتے رہتے ہیں جو زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے معاشرے میں تعفن، بے چینی اور ہیجان جیسے انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔

12 اگست 2022 کو کراچی میں ملک کے 75 ویں یوم آزادی کی تقریبات سے قبل پاکستان کے قومی پرچم کے رنگوں کے ماسک دیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

انسانی جسم میں بظاہر بیکار پڑا اپنڈیکس کسی ایسے سوئے ہوئے ناگ کی طرح ہے جو جاگ جائے تو اپنے زہر سے سبز ماحول کی سانسیں نیلی کر سکتا ہے۔

کسی بھی طرح کے انفیکشن کی صورت میں یہ ایسے شدید درد کا باعث بنتا ہے، جس کا علاج بذریعہ سرجری اسے جسم سے کاٹ کر الگ کرنا ہوتا ہے۔ تاخیر کی صورت میں یہ پھٹ کر جان لیوا ہو سکتا ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے اپینڈیسائٹس (Appendicitis) کہتے ہیں۔

لیکن سوچیے تو معاشرے کے بدن میں بھی اپنڈیکس کی طرح ایسے کئی خیالات و نظریات بسیرا کر گئے ہوتے ہیں، جو اگرچہ اثرات اور کارکردگی کے حوالے سے اپنی اہمیت کھو چکے ہیں لیکن اس کڑوی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہوتے ہیں کہ وہ عملی طور پہ اب متروک ہو چکے ہیں۔

اور یہ کہ وہ اپنی حد درجہ خوش قسمتی اور کسی اور کے بد قسمت حالات کی بدولت عطا ہوئے اپنے قیمتی لیکن محدود وقت کو بجائے کارِزمانہ میں خرچ کرنے کے، زبانی جمع خرچ اور الزام تراشی میں ضائع کرتے رہے ہیں۔

جو گھڑی کام کی تھی ہم نے گزاری کیسے
وقت جائے گا نکل ہاتھ سے تب سوچیں گے

لیکن بیانیے کے اس اپینڈیسائٹس پہ مزید بات کرنے سے پہلے آیے جانتے ہیں انسانی بدن میں موجود اس غدود کے بارے میں، جس کے اندر انفیکشن اس جان لیوا بیماری کو پیدا کرتا ہے۔

انسانی جسم کی ساخت اور نظام دونوں نہایت پیچیدہ ہیں۔ حیاتیات کے ماہر بتاتے ہیں کہ مختلف نظام اپنا اپنا کام کرتے ہیں لیکن پھر ان کے درمیان ایک رابطے کا نظام بھی ہوتا ہے۔

طبعی موت کی صورت میں یہ نظام سب سے پہلے ٹوٹتا ہے۔ ہر نظام اپنے اپنے پرزوں کے تحت کام کرتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی پرزہ، عضو یا حصہ اپنے کام کی نوعیت کو باقی پرزوں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا اور باقی سسٹم اسے ریجیکٹ کر دیتا ہے۔

اب اگر وہ عضو بے حس و حرکت پڑا رہے تو باقی نظام بھی اسے نظر انداز کیے رہتے ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں، پڑے رہو بھائی! لیکن یہ نظر اندازی عضوِ معطل کے بے ضرر ہونے تک ہی محدود ہے۔

جب تک بے حس پڑا رہے اپنڈیکس بے ضرر ہے لیکن جب اس میں بیرونی ذرات گھس جائیں یا انجیکٹ کر دیے جائیں تو اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں اور انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔ تب یہ لمبی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے اور ایسا درد دیتا ہے کہ تڑپتے بدن سے سرجری کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے۔

تاخیر کی صورت میں بم کی طرح پھٹ کر سارے نظام میں زہر کا فساد پھیلا دیتا ہے نتیجتاً مریض باقی تمام صحت مند نظاموں کو بھی اپنے ساتھ لیے موت کی وادی میں اتر جاتا ہے۔ بیالوجی کے ارتقائی ماہرین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے اپینڈکس انسانی جسم کا ایک کارآمد حصہ ہوا کرتا تھا یا کم از کم اتنا بے کار نہیں تھا، جتنا اب ہو گیا ہے۔

غزل کے شہنشاہ غالب کے شعر کو تبدیل کرنے کی آزادی استعمال کرتے ہوئے:

’وقت‘ نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی ’جسم میں‘ تھے کام کے!

جب کوئی حصہ  بیکار ہو جائے لیکن بے حس پڑا رہے تو بھلے زندگی بھر پڑا رہے پروا نہیں لیکن جہاں اس نے سر اٹھا کر تکلیف دینی شروع کی تو اس کا ایک ہی علاج ہے یعنی سرجری کے ذریعے الگ کر دینا۔

دیکھا جائے تو کوئی بھی نظام چاہے قدرتی ہو یا مصنوعی، معاشرتی ہو یا معاشی، اس کے تمام کل پرزے سو فیصد کام نہیں کر رہے ہوتے اور کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی پرزہ، حصہ یا جزو ناکارہ ہو چکا ہوتا ہے، چاہے اس سے پہلے وہ گلشن کے چلتے کاروبار میں شامل بھی رہا ہو، بھلے سوکھے ٹوٹے پتے ہی اڑاتا رہا ہو۔

سیاسی نظام بھی کچھ مختلف نہیں۔ اس میں بھی کچھ پرزے ایسے ہوتے ہیں جو اپنا وقت گنوا کر بے فائدہ ہو چکے ہوتے ہیں اور چلے ہوئے کارتوس جیسے بے جان اور ’بے بارود‘ ہو چکے ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ (سب نہیں) ناکارہ ہونے کے بعد بھی سکون سے نہیں بیٹھتے اور تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اپنڈیکس اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی یادوں کے ذرے اپنے اندر پالتے رہتے ہیں جو زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے معاشرے میں تعفن، بے چینی اور ہیجان جیسے انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اس غم میں کہ باقی نظام اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، سارے معاشرتی ڈھانچے کی توڑ پھوڑ کا عمل کریں، چارہ گروں کو اس کا علاج شروع کر دینا چاہیے۔

اور اس سے پہلے کہ یہ بے کار رہ رہ کر ایسے ذرات اپنے اندر جذب کر لیں، جن کی متحرک کیمسٹری ان کے معطل شدہ جزو سے میچ نہیں کرتی اور حتمی نتیجہ تباہی کی شکل میں سامنے آئے، سرجری کے لیے آپریشن تھیٹر کو جراثیم سے پاک کرنے کی تیاری کا آغاز کر لینا چاہیے، جس کے لیے ماہر اور غیر جانبدار سرجن پہ مشتمل ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب آپ کہیں گے کہ سرجن تو ہوتے ہی نیوٹرل ہیں، انہیں تمام علوم و وسائل بروئے کار لانے ہوتے ہیں اور سارے میڈیکل جمع بائیو ٹیک سٹاف جمع بیالوجیکل انجینیئرنگ سٹاف اور خاص طور پر اینستھیزیا سپیشلسٹ سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہوئے ساری توجہ مریض کے مرض کو دور کرنے پہ مرکوز کرنی ہوتی ہے۔

اگر سرجن باقی سٹاف سے ہم آہنگ نہ ہو، ان کی صلاحیتوں پر اعتبار نہ کرے، ان کے فراہم کردہ سرجیکل آلات پہ شک کرے اور آپریشن تھیٹر کے ماحول پر بھروسہ نہ کرے تو سب سے زیادہ نقصان کس کا ہو سکتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے سقراط کا ذہن ضروری نہیں، میرے اور آپ جیسے عام انسان کا دماغ ہی کافی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی لازم ہے کہ انسانی جسم ہو یا معاشرتی ڈھانچہ ایک ان دیکھا اور انجانا  کوآرڈینیشن سسٹم نہایت ضروری ہے، جو باقی تمام نظاموں کو غیر مرئی طور پر مربوط رکھ سکے کیونکہ خدانخواستہ اس کی کمزوری باقی نظاموں پہ منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

اب یہ آپ کی سوچ، علم، عقل، دانش، وجدان، تجربات اور پرکھنے کی کسوٹی پر ہے کہ آپ  کوآرڈینیشن سسٹم کس کو سمجھتے ہیں۔ آپ کے مثبت جوابات کا انتظار رہے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ