’عافیہ صدیقی، شکیل آفریدی کا قانونی تبادلہ ممکن نہیں‘

قانونی ماہرین کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کے لیے سب سے پہلے ممالک کے درمیان معاہدہ یا ٹریٹی ہونی چاہیے جب کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ ابھی تک نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران ایک نجی چینل کو انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا ایسا قانونی طور پر ممکن ہے؟

ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے ہے۔ وہ سابق قبائلی علاقہ جات میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت 33 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ شکیل آفریدی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ویکسین مہم کی آڑ میں امریکی ادارے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں مدد کی۔

تاہم ان کے سزا کے عدالتی ٹربیونل کے آرڈر میں یہ لکھا گیا ہے کہ ان کے کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے ساتھ تعلقات تھے اور ڈاکٹر شکیل نے خیبر میں جہاں وہ ڈیوٹی کرتے تھے، کے ہپستال میں اس تنظیم کے رہنماؤں کا علاج کرایا اور اس تنظیم کی مالی معاونت بھی کی۔

دوسری جانب ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں ایک امریکی جیل میں 86 سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔  

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے  بات کی ہے اور یہ جاننے کہ کوشش کہ ہے کہ کیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی قانون یا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت شکیل آفریدی اور عافیہ صدیقی کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد فہیم ولی سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ہیں اور پانچ سال تک پشاور یونیورسٹی کے لا کالج میں بین القوامی قانون کا مضمون پڑھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے سب سے پہلے ان ممالک کے درمیان معاہدہ یا ٹریٹی ہونی چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ ابھی تک نہیں ہے۔

فہیم ولی کے مطابق ایک یورپی ٹریٹی ’کنونشن آن ٹرانسفر آف پرزنرز‘ یعنی قیدیوں کے تبادلے کی ٹریٹی موجود ہے جس پر امریکہ نے دستخط کیے ہیں لیکن پاکستان نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

اس ٹریٹی کے بارے میں لمز کے شعبہ قانون کے اسسٹنٹ پروفیسر عماد انصاری کا کہنا تھا کہ 2013 میں سابق وزیر اعظم  نواز شریف کی کابینہ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کی منظوری دی تھی لیکن ابھی تک اس پر دستخط نہیں ہو سکے۔ انھوں نے بتایا کہ دستخط نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں پاکستان کی وزارت خارجہ بہتر بتا سکیں گے لیکن اس ٹریٹی کے بغیر قانونی طور قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہو سکتا۔

انھوں نے بتایا: ’پہلے اس ٹریٹی پر دستخط کرنے پڑیں گے اور بعد میں لوکل قانون کو اس کے مطابق بنایا جائے گا۔ دستخط کے بعد بھی کچھ قانونی ضروریات ہیں جن کو پورا کرنے کے بعد ہی قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہو سکتا ہے۔‘

عماد انصاری کے مطابق اس معاہدے کی شق نمبر نو میں لکھا گیا ہے کہ اگر امریکہ میں کسی دوسرے ملک کا قیدی اپنے وطن واپس بھیجا جائے تو اس ٹریٹی کے مطابق ان کی سزا برقرار رہے گی۔ البتہ اس سزا کو اس حالت میں تبدیل کیا جا سکتا کہ جب اس ملک کے  مقامی قانون کے مطابق اس کیس کو سنا جائے اور قیدی کو سزا سنائی جائے۔

عماد انصاری کہتے ہیں ’اب اگر عافیہ کیس کو اس شق کے تحت دیکھا جائے تو جب ان کو پاکستان منتقل کیا جائے تو ان کو وہی سزا کاٹنی پڑے گی، جس کے نتیجے میں یہاں ایک سیاسی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘

 وزارت خارجہ کے ‘نو کمنٹس‘

اس معاملے پر جب وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل سے پوچھا گیا کہ 2013 میں اگر کابینہ نے اس معاہدہ کی منظوری دی تھی تو اس پر دستخط کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ اس کے جواب میں ترجمان نے ‘نو کمنٹس‘ کہہ کر کوئی بھی بات کرنے سے معذرت کر لی۔

ٹریٹی کس طرح سائن ہوتی ہیں؟

اس حوالے سے محمد فہیم ولی نے بتایا کہ کہ مخلتف ممالک میں اس کے لیے مخلتف طریقہ کار وضع کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق بعض ممالک میں اس کے لیے متعلقہ وزیر کی منظوری  ضروری ہوتی ہے، بعض میں کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے جبکہ ایسا بھی ہے کہ اس کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کہ شکیل آفریدی اور عافیہ کیس میں پاکستان کو یہ پورا طریقہ کار اپنا کر ٹریٹی پر دستخط اور بعد میں توثیق کرنی پڑے گی۔ گذشتہ سال عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کر کے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس لایا جائے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے اس پیٹیشن کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستانی عدالت کس طرح امریکی اتنظامیہ کو یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس بھیج دیں۔ عدالت نے عافیہ کی بہن سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں امریکی عدالت سے رجوع کریں۔

پیٹیشن میں  فوزیہ صدیقی نے اس معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عدالت حکومت کو احکامات جاری کرے  کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کرے تاکہ اس کے تحت عافیہ صدیقی کو وطن واپس لایا جاسکے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان