چینی سعودی عرب کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟

سعودی عرب 2022 کے پہلے سات مہینوں میں بین الاقوامی سیاحوں کے لیے جی ٹوئنٹی ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔

سات دسمبر 2022 کو لی گئی اس تصویر میں چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی دارالحکومت ریاض کے دورے سے قبل ایک سڑک پر چینی اور سعودی پرچم دیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی)

سعودی عرب 2030 تک مملکت میں 10 کروڑ سیاحوں کو لانے کے اپنے ہدف کو پورا کرنے کا عزم رکھتا ہے، جس کے لیے مملکت کا سیاحتی شعبے کو وسعت دینے کا منصوبہ نتیجہ خیز ثابت ہو رہا ہے۔

یہ بات اس حقیقت سے بھی واضح ہے کہ مملکت 2022 کے پہلے سات مہینوں میں بین الاقوامی سیاحوں کے لیے جی ٹوئنٹی ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ باہر سے آنے والوں کی تعداد کرونا وبا سے پہلے کی سطح کے 77 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اکتوبر میں سی این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے سعودی وزیر سیاحت احمد الخطیب نے کہا تھا: ’چین ایک بہت اہم مارکیٹ ہوا کرتا تھا لیکن یہ ابھی تک بند ہے۔ اس سال ہم نے یورپ اور امریکہ کی طرف سے بہت زیادہ طلب دیکھی۔ میں چاہتا ہوں کہ ان میں سے کچھ پابندیاں نرم ہوں کیونکہ چینی مارکیٹ نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر تمام ممالک کے لیے بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔‘

چین میں صفر کرونا پالیسی رائج ہے، جس میں لاک ڈاؤن، قرنطینہ اور سخت ٹیسٹنگ شامل ہے۔ اس پالیسی کا مقصد کرونا وبا کو پھیلنے سے روکنا ہے۔

ستمبر 2019 میں ای ویزا کے اجرا کے بعد سعودی عرب کی وزارت سیاحت نے اسی سال کے تین ماہ میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد سیاحتی ویزے جاری کیے۔

پہلے دس روز میں چار ہزار غیر ملکی سیاح سعودی عرب میں داخل ہوئے۔ اس فہرست میں چین سے آنے والوں کی تعداد سب سے اوپر ہے اور برطانیہ اور امریکہ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

مئی میں چائنا آؤٹ باؤنڈ ٹورازم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے جاری کردہ تحقیق میں 2023 میں چینی شہریوں کی ملک سے باہر کے سفر میں ’شدید لہر‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ تعداد 2024 تک 2019 کے نمبروں پر واپس آجائے گی۔

انسٹی ٹیوٹ کے سی ای او وولف گینگ جارج آرلٹ نے کہا: ’معلومات کے حصول اور سروسز کی لہر آنے سے پہلے تیاریاں کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سعودی عرب چینی سیاحوں کی واپسی کے لیے پوری طرح سے تیار ہے، بہت سے اداروں نے ویلکم چائنیز سرٹیفکیشن پروگرام کی ہدایات کو اپنایا ہے، جسے ملک سے آنے والے سیاحوں کے لیے سفر اور مہمان نوازی کی خدمات کے لیے بین الاقوامی معیار سمجھا جاتا ہے۔

ریاض ایئر پورٹس کمپنی، جو بین الاقوامی ہوائی اڈے کنگ خالد کا انتظام سنبھالتی ہے، نے کہا کہ وہ ہوائی اڈے اور اس کی سروسز کو چینی سیاحوں کے لیے زیادہ قابل رسائی اور صارف دوست بنانے کے لیے عمل درآمد کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمپنی نے کہا کہ نئی سہولیات چین سے آنے والے سیاحوں کے تجربے کو بہتر بنائیں گی جس سے زبان کی رکاوٹ پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اہم خدمات فراہم کی جائیں گی، بشمول ادائیگی کے نظام، جو ان کے آبائی ملک کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ اس اقدام میں ان چینی مسافروں کے لیے ای ویزوں کی دستیابی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جو مملکت کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔

مملکت کی تفریح اور سیاحت کو فروغ دینے کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ریڈ سی گلوبل (آر ایس جی) ہے۔ آر ایس جی اس وقت سعودی عرب میں دو پرتعیش سیاحتی مقامات بننے کی نگرانی کر رہا ہے، جن میں بحیرہ احمر اور امالا شامل ہیں۔

آر ایس جی کے گروپ ہیڈ آف آپریشنز انتون بواب کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد چینی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور مملکت اور آر ایس جی کے مقامات ان کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’چینی مارکیٹ نے کسی بھی ملک کے لیے زبردست صلاحیت دکھائی ہے، جو اس کے لیے کھولی گئی، جیسے کہ یورپ، دبئی اور مالدیپ۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’کووڈ سے پہلے، چینی سیاحوں کے پاس عالمی سیاحت کے اخراجات کا تقریباً پانچواں حصہ تھا۔ سعودی عرب میں چینی مسافروں اور خاص طور پر آر ایس جی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ بحیرہ احمر میں، چینی سیاح مالدیپ جیسا تجربہ حاصل کرسکتے ہیں، جو ان کے لیے ایک مقبول مقام ہے لیکن وہ اسے ثقافت، شاپنگ اور ورثے کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا