عمران سیریز کی کتابیں اب مفت آن لائن دستیاب ہوں گی

آج 26 جولائی کو ابن صفی کی برسی کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو نے ان کے صاحب زادے احمد صفی سے ایک انٹرویو کیا جو پیش خدمت ہے۔

ان کے لکھنے کی کوئی مخصو ص جگہ  اور وقت نہیں تھے، عموما وہ گھر پر ہی لکھا کرتے تھے (سوشل میڈیا )۔

آج شہرۂ آفاق جاسوسی مصنف ابنِ صفی کی 90ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ان کے صاحب زادے احمد صفی نے اس موقعے پر اپنے والد کی کچھ یادیں ہمارے ساتھ شیئر کیں۔  

اگر وہ مجھے ایک آنہ دے دیتے؟

’ابن صفی کی وفات کے وقت میں 20 سال سے کچھ زیادہ عمر کا تھا۔ مجھے یونیورسٹی میں داخلہ لیے چند دن ہوئے تھے۔ بچوں کے ساتھ ابن صفی کا رویہ بہت دوستانہ تھا۔ ہم ان سے کچھ نہیں چھپاتے تھے۔ وہ سونے  کا نوالہ کھلاتے تھے لیکن شیر کی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ وہ اکثر ہمارے ساتھ مل کر شرارتیں بھی کرتے تھے۔ ان کے لکھنے کے دوران ہماری والدہ ہمیں شرارت کرنے سے منع کرتی تھیں لیکن وہ انہیں منع کرنے سے روکتے تھے۔   ہمارے بچپن کے ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں ان کے رد عمل  نے ہماری تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک دفعہ ہمارے محلے میں بائیسکوپ والا آیا جس کے کیمرے میں فلمی ستاروں کی تصاویر دیکھی جا سکتی تھیں۔ تو ہم بہن بھائی وہی تصاویر دیکھ رہے تھے۔ اتنی دیر میں ابو کا کہیں سے آنا ہوا تو انہوں نے ہمیں وہاں کھڑے دیکھ کر کچھ نہیں کہا بلکہ ہمارے گھر جانے پر انہو ں نے مجھ سے پوچھا کہ میں خود تو تصاویر دیکھ رہا تھا لیکن میں نے اپنے بہن بھائیوں کو وہ تصاویر کیوں نہیں دکھائیں؟میں نے جواب دیا کہ میرے پاس پیسے کم تھے تو وہ بولے کہ پھر تو مجھے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ہی وہ تصاویر دکھانی چاہئیے تھیں۔ ان کی اس بات نے مجھے سکھایا کہ ہمیں خود سے پہلے دوسروں کا سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ اسی وقت میرے بہن بھائیوں کو بھی ایک ایک آنہ دے دیتے  اور کہتے کہ تم بھی دیکھ لو تو شاید یہ بات ہماری تربیت کا حصہ نہ بن پاتی۔

 اس طرح ایک بار میرے بڑے بھائی ابرار محلے میں کسی  کی شادی میں شریک  تھے۔ وہاں ناچ گانا ہو رہا تھا۔ ابو نے انہیں بلا کر پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا طریقہ ہے؟ آپ سڑک پر کیوں ناچ رہے ہیں؟ تو میرے بھائی نے جواب دیا کہ ہم خود ہی ناچ رہے ہیں کسی کو بلا کر نچوا تو نہیں رہے۔ اس بات پر ابو نے فوری طور پر کہا کہ تم جاؤاور جا کے اپنا ناچ گانا جاری رکھو، کیونکہ ہم نے خود  زندگی بھر یہی لکھا ہے  کہ کسی کی مجبوریوں کو استعمال کرکے اسے نچوانا غیر مناسب ہے۔

درست بات کوئی بھی کرتا تو وہ اسے قبول کر لیتے تھے۔ وہ سیکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بات نے بھی ہماری تربیت میں کردار ادا کیا۔‘

چارپائی پر لیٹ کر لکھتے تھے

’ان کے لکھنے کی کوئی مخصوس جگہ نہیں تھی۔ ایک زمانے میں انہوں نے دفتر میں بیٹھ کے لکھنے کوشش کی تو وہاں پرستار جمع ہوجاتے تھے۔ وہ گھر پر زیادہ لکھتے تھے۔ رات گئے تک لکھتے تھے۔ دوپہر اور سہ پہر میں بھی لکھتے تھے۔ عموما وہ اپنی چارپائی پر بائیں کروٹ لیٹ کر دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے اور لکھتے وقت ایک تکیہ ان کے بازو کے نیچے دبا ہوتا تھا۔ وہ لکھنے کے لیے  کلپ بورڈ کا استعمال کرتے تھے۔‘

ایک ماہ میں چار ناول بھی لکھ لیتے تھے

’انہوں نے 1952 میں پاکستان ہجرت کرنے سے پہلے ہی فریدی سیریز لکھنا شروع کر دی تھی۔ یہاں آنے کے بعد انہوں نے عمران سیریز لکھنے کا آغاز کیا۔ وہ مہینے میں چار ناول بھی لکھ لیتے تھے لیکن دماغ کے زیادہ استعمال سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے تھے۔ ایک ماہر نفسیات نے مجھے بتایا تھا کہ یہ بیماری (جسے پہلے شیزوفرینیا کہا گیا لیکن وہ بائی پولر ڈس آرڈر تھی) دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ زیادہ کارکردگی کی وجہ سے دماغ خود کو شٹ ڈاؤن کر لیتا۔ یہ مسئلہ تین سال تک چلتارہا۔ جس کے بعد معالجین کے کہنے پر انہوں نے پہلے مہینے میں ایک ناول لکھنا شروع کیا اور پھر یہ سلسلہ دو تین ماہ بعد ایک ناول تک چلا گیا۔‘

کیا انہوں نے کہانیاں سنانے کے لیے لوگ رکھے ہوئے تھے؟

’یہ افواہ ہے۔ (ہنستے ہوئے) اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ ان کی لکھائی کا پورا نظام ایک آدمی پر چل رہا تھا اور یہ آدمی ابن صفی خود ہی تھے۔ وہ خود لکھتے تھے، خود چھپوا کر شائع کرنے کے بعد فروخت کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک پورا ادارہ تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد ہم نے کوشش کی ہم ان کی مدد کریں لیکن وہ نہیں چاہتے تھے ہم اس طرف آئیں۔ وہ کمانے کی غرض سے نہیں لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی لکھائی کو آمدن کا ذریعہ نہیں بنایا۔ وہ  اپنی تمام ریسرچ  بھی خود کرتے تھے۔‘

ملتے جلتے ناموں کی پوری کھیپ 

’ان کی بیماری میں لوگوں نے ان کا نام استعمال کر کے نام بنانے کی کوشش کی۔ ان کے نام کو مختلف انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ایک این صفی آئے، کوئی بے پر تشدید کے ساتھ ابن صفی ہوئے  لیکن ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ تو ابن صفی نے اس پر کہا تھا کہ جاسوسی ناول میں نوواردوں کی آمد کے بعد اگر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اپنی ولدیت میں میرے والد صفی کا نام لکھوا لے (قہقہہ)۔ انہوں نے اس تمام معاملے کو بہت لطیف انداز میں سمیٹا۔ کوئی بھی ان کی طرح کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔‘

قانونی کارروائی

’بیماری سے اٹھنے کے بعد انہوں نے جعلی عمران سیریز لکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی کوشش لیکن  اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ بعد میں انہوں نے اپنے ناولوں کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کو بھی کاپی رائٹ کرا لیا تھا۔ جس کے بعد کوئی ان کے کرداروں کو ان کے ان کے خاندان کی مرضی کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان کرداروں کے جملہ حقوق ابن صفی اور ان کے خاندان کے نام پر محفوظ ہیں۔‘

عمران کا کردار کہیں سے متاثر ہو کر تخلیق کیا؟

’اس بارے میں انہوں نے خود تو کچھ نہیں لکھا یا بتایا لیکن لوگ مختلف اندازے لگاتے رہے ہیں۔ مثلا فریدی کے کردار کو وہ ایک آئیڈیل کردار سمجھتے تھے۔ وہ خواہش کرتے تھے کاش کوئی ایسا کردار حقیقت میں بھی ہو۔ جو اصول پسند ہو۔ کھرا ہو۔ ایسا کردار تو صرف قائد اعظم کا ہی نظر آتا ہے۔ جو ہمیشہ قانون پر عمل کرتے تھے۔ فریدی بھی قانون پر عمل کرتے ہوئے مجرموں کو پکڑتا ہے۔ تو فریدی کے کردار میں ہم قائداعظم کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ جو بڑی گاڑی میں گھومتا ہے، سگار پیتا ہے، کتے پالتا ہے لیکن ہمیشہ قانون پر عمل پیرا رہتا ہے۔ اور غریبوں کے لیے کام کرتا ہے۔

اسی طرح عمران کا کردار بھی ایک افسانوی کردار ہے۔ جو بالکل پاکستان جیسا ہے جس کے مستقبل کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ عمران کے کردار کے پیچھے اس دور کے عوامل کارفرما تھے۔ وہ اپنے دور کا سپر ہیرو بن چکا تھا۔ جو کام کوئی نہیں کر سکتا تھا وہ کام صرف عمران کر گزرتا تھا۔ وہ ہر مشکل صورتحال سے ہیرو بن کے نکلتا تھا۔ وہ ہر قسم کے حالات میں امید کا استعارہ بن جاتا تھا۔ اب صفی نے یقینی طور پر یہ کردار کسی سے متاثر ہو کر ہی تخلیق کیا ہو گا۔‘

آج تک کتابیں دھڑادھڑ بک رہی ہیں

’ابن صفی کے انتقال کے باوجود ان کی کتابیں مارکیٹ میں مسلسل موجود ہیں۔ جو خریدی اور بیچی جا رہی ہیں۔ ان کے نئے نئے ورژن آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک جلد میں چار ناول شائع کیے گئے ہیں جن کے سرورق پر موجود تصاویر پرانے ناولو ں سے ہی لی گئی ہیں۔ ان کے مداح ابھی تک ان کتابوں کو خرید رہے ہیں، نیٹ پر غلطیوں سے بھرپور  پی ڈی ایف کاپیاں بھی موجود ہیں۔ اب جلد ہی ان کے اچھے ورژن بھی متعارف کروائے جائیں گے جن کی کوئی قیمت نہیں لی جائے گی۔‘

انگریزی ترجمہ:

’بھارت میں کیے جانے والی انگریزی ترجموں کا ریسپانس اچھا تھا لیکن وہ محدود لوگوں کے لیے تھی۔ ڈاکٹر ڈریڈ سیریز کے لیے شمس الرحمان فاروقی نے چار ناول ترجمہ کروائے تھے۔ اس طرح ایک اور ادارے نے ابن صفی کی عمران سیریز کے چار ناول ترجمہ کروائے تھے۔ ان کتابوں کے ہندی ایڈیشنز بھی چھاپے گئے۔ مختلف زبانوں میں ان ناولوں کو لوگوں نے کافی پسند کیا۔‘

ای بک:

’ری سرچرز کی آسانی کے لیے ایسا فارمیٹ متعارف کروایا جا رہا ہے جس میں لوگ تمام ناولوں میں موجود کرداروں کو سرچ کرسکیں گے۔ ای بک کے رائج معیار کے مطابق اس طریقہ کار کو لایا جا رہا ہے۔ کتابوں کو دوبارہ لکھا جا رہا تاکہ لوگوں تک ان ناولوں کی اصل کہانی کو پہنچایا جا سکے۔ تاکہ وہ مکمل کتاب ایک ہی جگہ پڑھ سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ادب