محمد اسرار ضلع مانسہرہ کی تحصیل اوگی کے ایک نواحی گاؤں دلبوڑی کے رہنے والے ہیں۔ وہ کمہار ہیں اور مٹی سے برتن بناتے ہیں۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں عرصہ 30 سال سے اس پیشہ سے وابستہ ہوں۔ ہمارے آبا و اجداد بھی یہ کام کرتے تھے جن سے ہمیں بھی یہ پیشہ ورثے میں ملا ہے۔ اب اسرار احمد کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی یہ کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ نہایت مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ ہم سب سے پہلے مٹی کی تلاش کرتے ہیں جو عموماً ہمیں دو نواحی قصبوں خم گلی (ہمانو گلی) اور خیرآباد سے مل جاتی ہے، یہاں زمین کو دو سے اڑھائی فٹ کھودا جاتا ہے اور پھر نیچے سے نکلنے والی مٹی کو جمع کر کے گدھوں اور خچروں کی مدد سے مین سڑک تک لایا جاتا ہے جہاں سے پھر یہ مٹی ٹریکٹر ٹرالی کی مدد سے گھر لائی جاتی ہے۔‘
محمد اسرار بتاتے ہیں کہ ’یہاں پر مٹی کو دو الگ حصوں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک بالکل صاف مٹی اور دوسری ریتلی یا دانے دار مٹی۔‘ وہ انہیں الگ کرنے کا مقصد بتاتے ہیں کہ صاف مٹی برتن بنانے جبکہ دانے دار مٹی مختلف اشیا کے پیندے بنانے میں کام آتی ہے۔
اس کے بعد مٹی کے دونوں ڈھیروں کو پانی اور اون کا باریک دھاگہ بنا کر ہاتھوں اور پاؤں سے خوب مل کر گارا بنا دیا جاتا ہے۔ اب یہ مٹی برتن بنانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مٹی سے اپنے فن اور تجربہ کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اشکال کے چیزیں بنائی جاتی ہیں جن میں آگ جلانے والے چولہے سے لے کر کھانے پینے کے برتن اور تندور وغیرہ تک شامل ہیں۔ ان برتنوں کو دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے مگر ٹھہریے، کام یہاں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ان خشک اشیا کو چمنی نما خاص جگہ جسے مقامی زبان میں ’آوی‘ کہا جاتا ہے، میں تہہ در تہہ رکھ کراردگرد آگ جلائی جاتی ہے تاکہ یہ مزید پائیدار ہو جائیں۔ اب یہ چیزیں مکمل پک چکی ہیں اور بکنے کے لیے تیار ہیں۔
محمد اسرار اسے فن دستکاری کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ہم انہیں بڑی محنت سے تیار کرتے ہیں اور ان برتنوں کے اوپر گُل کاری بھی کرتے ہیں مگر اتنی محنت کے باوجود جب ہمارے برتن مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کی مانگ نہیں ہوتی۔‘
اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ ’ایک تو یہ برتن قدیم دور سے مستعمل ہیں اور ان کا استعمال متروک سمجھا جاتا ہے دوسرا یہ برتن سٹیل، سلور اور دیگر برتنوں کے مقابلے اس پر بہت زیادہ محنت لگتی ہے جس کی وجہ سے یہ نسبتاً مہنگے بھی ہوتے ہیں۔‘
روزانہ کی آمدن کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ کبھی کام بہت اچھا ہوتا ہے اور کبھی بالکل نہیں ہوتا، مگر اس کے باوجود محمد اسرار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔