ایک قبائلی خاتون نے گھروں میں بیٹھ کر ہاتھوں سے چیزیں بنانے والی خواتین کے لیے ایک دکان کھولی ہے جہاں وہ اپنی بنائی اشیا فروخت کر سکتی ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی صدف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان کی ملاقات ملک کے ہر حصے سے آنے والے طلبہ سے ہوئی اور یوں انہیں ہر ثقافت سے محبت ہوئی۔
انہوں نے سوچا کہ ان خواتین کی مدد کی جائے جن کا تعلق قبائلی اضلاع کے پسماندہ علاقوں سے ہے اور گھروں میں خوبصورت اشیا بناتی ہیں لیکن ان کے پاس ایسا پلیٹ فارم نہیں جہاں وہ اپنا ہنر پیش کر سکیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی سے مطالعہ پاکستان میں ایم فل کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد صدف نے پشاور صدر بازار میں اپوا مال سمانہ آرٹ گیلری کے نام سے ایک دکان بنائی۔
صدف نے بتایا کہ سکھر سے ہمارے پاس چیزیں آتی ہیں، پارا چنار کی خواتین چیزین بجھواتی ہیں جبکہ سندھ کے کچھ دیہات کی خواتین سے ہم آن لائن اور کچھ سے تعلقات اور دوستی کے ذریعے چیزیں لیتے ہیں جنہیں ہم اپنی دکان پر رکھتے ہیں۔
’ہمارے پاس پورے پاکستان سے ہاتھوں سے بنی چیزیں موجود ہیں اور کوئی بھی آئٹم لینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرتی ہوں۔ جیسے سوات کی کڈی شال ہے تو اس کے لیے میں اسلام پور گاؤں گئی اور وہاں کی گاریگروں اور ہنرمندوں سے ملی، کپڑے کا پوچھا اور اس کے بعد ان کی شال اپنی دکان پر رکھیں۔‘
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی صدف کہتی ہیں کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ساتھ لاتے ہیں اور ان کو دیکھاتے ہیں کہ یہ ہمارا پختون کلچر ہے یا جو باقی پاکستان کے علاقوں کی اشیا ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی دکان پر بیرون ملک سے غیر ملکی بھی خریداری کے لیے آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ ہمارے ٹرک آرٹ، ووڈ ورک، ووڈ کرافٹ میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ پورے پاکستان کی جو ثقافت ہے وہ ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے اور اس کے ساتھ ہنرمندوں کی مدد ہو سکے۔‘
’ہماری دکان ایسی خواتین کی مدد کے لیے ہے جو گھر میں کوئی کام کرتی ہوں، تو اپنی بنائی چیزیں ہمارے پاس رکھوائیں اور اپنی محنت کا معاوضہ ہم سے اسی وقت لیں۔‘
صدف نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں سوات کی خواتین کڑھائی میں زیادہ سرگرم ہیں، پارا چنار کی خواتین ڈیکوریشن پیس بناتی ہیں۔ ان کے علاوہ وزیرستان کی خواتین تو مزری ورک اور ٹوکریاں بنانے میں ماہر ہیں۔
صدف کہتی ہیں کہ بطور لڑکی کام کرنا مشکل تھا لیکن والدہ کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے ممکن ہوسکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال اگست میں دکان کھولی اور اب میری خواہش ہے کہ اس کے ساتھ اور بھی دکانیں کھول دوں، جس میں پاکستان کے ہر صوبے کے الگ الگ ثقافتی پہلو نظر آئیں۔
بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔