مانسہرہ کی ماریہ گل ’خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون ہیں‘ جن کی سیاحتی کمپنی رجسٹر ہونے کے بعد صارفین کو خدمات دے رہی ہے۔
ماریہ گُل کا تعلق ضلع مانسہرہ کے ایک گائوں سے ہے اور انہوں نے ہزارہ یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹرز کیا ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’میں نے بہت کم عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا شاید اس وقت میری عمر بمشکل 16 سال ہو گی۔ وہ بتاتی ہیں کہ دوران نوکری میں نے کئی تلخ اور خوشگوار تجربات کیئے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اُردو سےگفتگو کرتے ہوئے ماریہ گل کا دعویٰ تھا کہ ’خوش قسمتی سے میں ہزارہ ڈیویژن بلکہ خیبر پختونخواہ کی پہلی خاتون ہوں جس نے ٹورزم بزنس میں اپنی کمپنی رجسٹر کی ہے اور باقاعدہ خدمات بھی فراہم کر رہی ہوں۔‘
اس شعبے میں قدم رکھنے سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ مجھےشروع ہی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اوردیگر کلچرز کو قریب سے دیکھنے کا شوق ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بہت وسیع شعبہ ہے اور یہاں پر روزگار کے مواقع بہت زیادہ ہیں، یعنی میں نہ صرف اپنے خاندان کی کفیل ہوں بلکہ کئی دیگر خاندانوں کے روزگار کا بھی ذریعہ ہوں۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس شعبے میں آنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ میں مقامی سیاحت اور ثقافت کو ہزارہ اور بالخوصوص مانسہرہ کی سطح اجاگر کر سکوں اور اس شعبہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی مثبت تصویر دُنیا کے سامنے لاسکوں۔
اس فیلڈ میں آنے والی مشکلات کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ماریہ گُل کا کہنا تھا: ’میں ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتی ہوں جہاں ٹورزم جیسے شعبے میں لڑکیوں کا آنا اتنا مناسب نہیں سمجھا جاتا اورمیں نے اپنے آپ کو اس فیلڈ میں منوایا ہے۔ شروع میں کچھ لوگ میری حمایت کر رہے تھے جبکہ کچھ لوگ یہ کہہ کر سپورٹ نہیں کررہے تھے کہ یہ لڑکی ہے زیادہ دیر اس شعبے میں ٹِک نہیں پائے گی۔
نیز لڑکیوں کو کلائنٹس کے ساتھ کئی دنوں تک باہر رہنا اور سفر کرنا زیب نہیں دیتا بالخصوص جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں پر تو لوگوں کا یہی خیال ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے یکے بعد دیگرے منصوبے کیے اور پورے ملک سے خواتین کو کامیاب ٹوورز کروائے تو اس سے باقی لوگوں کو بھی حوصلہ ملا۔‘
انڈپینڈنٹ اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے ماریہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوگوں کو کہا کہ جہاں خواتین دیگر شعبوں میں آگے ہیں وہیں پر لڑکیوں کو اس فیلڈ میں بھی آگے آنا چاہیئے کیوں کہ اس شعبے میں اُن کے لئے روزگار کے کئی مواقع موجود ہیں جس سے وہ خود کو بہتر طریقہ سے منوا سکتی ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے ارادہ کیا کہ عوام بالخصوص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیئے جہاں پر وہ آ کر آزادی سے کچھ سیکھ کر عملی زندگی میں قدم رکھ سکیں۔
’مانسہرہ میں ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے میں نے ایسے نوجوان لڑکوں لڑکیوں کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں وہ یہاں پر آتے ہیں اور کورسز مکمل کرکے اسناد حاصل کرتے ہیں۔‘
اپنی خدمات کے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ میرا دفتر ضلع مانسہرہ میں ہے لیکن وہ پورے ملک میں سروسز فراہم کر رہی ہیں خصوصاً جو لوگ شمالی علاقہ جات کی طرف جاتے ہیں اُن کے لیئے میں مکمل ٹوورز آرگنائز کرنے کے ساتھ ساتھ میں مختلف کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایونٹس کرواتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سکول اور فیملی ٹورزم پر کام کر رہی ہیں جس میں سیاح ناران، کاغان، گلگت، ہنزہ، سکردو اور مانسہرہ کے مضافات حتیٰ کہ پورے پاکستان میں سفر کر سکتے ہیں۔
سماجی خدمات کے متعلق ماریہ گل کا کہنا تھا کہ خواتین کی تعلیم کے لئے وہ پسماندہ علاقوں میں سیمینارز کروا کر وہاں کے لوگوں کو خواتین کی تعلیم کے حوالے سے حوصلہ دیتی ہیں۔ ’ہم پڑھی لکھی بچیوں کو اُن علاقوں کی بچیوں کے ساتھ بٹھاتے ہیں تاکہ وہ بھی علم کے حصول کی جانب راغب ہو سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذاتی کامیابی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ چار برس سے اس شعبے میں خدمات فراہم کر رہی ہیں اور ان کا تجربہ بہت اچھا رہا کیوں کہ بڑی بڑی فرمز بھی اتنی جلدی مستحکم نہیں ہوتیں مگر انہوں نے بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ کام کیا ہے۔
نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔
’میرے جیسی ایک چھوٹے سے علاقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی اپنے بل بوتے پر تعلیم اور نوکری ساتھ ساتھ کر سکتی ہے۔ میں نے یہ سب کر کے ثابت کیا ہے کہ اگر آپ کے مالی حالات اچھے نہ ہوں اور کوئی پلیٹ فارم موجود نہ بھی ہو مگر آپ کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی کو آپ کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔‘