کیا اواتار فلمی صنعت میں تھری ڈی فارمیٹ کو بچا پائے گی؟

جیمز کیمرون کی 2009 کی بلاک بسٹر نے ان بہت سے لوگوں کو خاموش کر دیا جو تھری ڈی سینیما کی صلاحیت پر شک کرتے تھے۔ 13 سال بعد وہ شکوک و شبہات لوٹ آئے ہیں۔

’اواتار: دا وے آف واٹر‘ کے مرکزی کردار (آئی ایم ڈی بی)

اواتار فرنچائز کی نئے آنے والی فلم ’اواتار: دا وے آف واٹر‘ سے بہت توقعات ہیں۔

یہ بات ماننا مضحکہ خیز ہے کہ اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا سیکوئل ممکنہ طور پر ایک جُوا ثابت ہو سکتا ہے لیکن درحقیقت ایسا ہی ہے۔

اواتار 13 سال قبل پہلی بار سکرین کی زینت بنی تھی۔ اس دوران سنیما کا منظرنامہ ناظرین میں کمی، سٹریمنگ سروسز میں تیزی سے جنم لینی والی مسابقت اور حقیقی آئیڈیاز پر کم ہوتی سرمایہ کاری کی وجہ سے تبدیل ہو چکا ہے۔

جیمز کیمرون نے دی وے آف واٹر کے بجٹ کو ابھی تک ظاہر نہیں کیا، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ ’بہت مہنگا‘ پروجیکٹ ہے۔

تجربہ کار فلم ساز کے مطابق فلم کا صرف خرچہ نکالنے کے لیے دی وے آف واٹر کو اب تک کی ’تیسری یا چوتھی‘ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بننا پڑے گا۔ 

تاہم غیر واضح بیلنس شیٹس اور سرمایہ دارانہ حماقت کے اس کھیل سے کچھ اور بھی داؤ پر لگ سکتا ہے، یعنی تھری ڈی فلموں کا مستقبل۔

اواتار کا ذکر کیے بغیر تھری ڈی فلموں کے بارے میں بات کرنا تقریباً ناممکن ہے، یعنی یہ تمام تھری ڈی فلموں کے لیے 1940 کی دہائی کی کلاسک ’سٹیزن کین‘ کی طرح ہے، جس کی تعریف کرنے کے لیے سادہ لوح لینز کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن یہ تھری ڈی کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی پہلی کوشش سے بہت دور تھا۔

درحقیقت، فلم سازوں نے سنیما کے ابتدائی دنوں سے ہی تھری ڈی پروجیکشنز کے ساتھ تجربات کیے تھا، جسے 1950 کی دہائی میں ایک مختصر عروج حاصل ہوا۔

(الفرڈ ہچکاک کی 1954 کی شاندار سنسنی خیز فلم ’ڈائل ایم فار مرڈر‘ کے ساتھ اس رجحان کو بہت بلندی پر سمجھا جاتا تھا)۔

اگرچہ اس میں اخراجات (پرنٹ کے لیے فلم سے دوگنا اور اکثر دو پروجیکشنسٹ کی ضرورت ہوتی ہے) اور موشن سِکنیس کے واقعات جیسی خامیاں تھیں۔

1980 کی دہائی تک کنکس ختم ہونا شروع ہو گئے تھے، تاہم آئی میکس سکرینز کے عروج کے ساتھ ان کے دوبارہ زندہ ہونے کا امکان پیدا ہوا۔

1990 اور 2000 کی دہائیوں کے دوران تھری ڈی فلموں کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

بچوں کی بہت سی فلمیں اور ژانرے کا رجحان تھری ڈی میں بنے، جن میں ’جرنی ٹو دا سنٹر آف دا ارتھ‘، ’سُپرمین ریٹرنز‘ اور ماضی کی بہت کامیاب اور کلاسیک فلموں، جیسے سٹار وار، ٹائٹینک، دا لائن کنگ کو تھری ڈائمنشن میں تبدیل کر کے بڑی سکرینز پر پیش کیا گیا۔

نہایت ہی قدرتی انداز میں اس فارمیٹ کی مخالفت بھی ہوئی۔ انہوں (مخالفت کرنے والوں) نے اس بارے میں دلیل دی کہ یہ ایک توجہ حاصل کرنے کی چال تھی۔ ایسا ممکن تھا لیکن یہ چال ملٹی پلیکس پر قبضہ جما رہی تھی۔

اواتار پہلی فلم تھی جس سے لگا کہ یہ اس بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے، یعنی ایک بڑا اور ہٹ بلاک بسٹر پروجیکٹ جو تھری ڈی تجربے کو پوری طرح ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔

تھری ڈی کی شمولیت نے اواتار کی دنیا یعنی ’پنڈورا‘ کے شاندار مناظر اور نباتات کی زندگی کے ساتھ انصاف کیا، حتیٰ کہ اواتار کی کہانی اور اس کے مرکزی پلاٹ پر تنقید کرنے والوں کو بھی فلم کی تکنیکی صلاحیت کی تعریف کرنا پڑی۔ بالآخر تھری ڈی کا ظہور پورے آب و تاب سے ظاہر ہو چکا تھا۔ 

لیکن تھری ڈی کے ساتھ عوام کی محبت کا معاملہ موسم گرما سے لگاؤ کی طرح مختصر ثابت ہوا۔

اس (تھری ڈی) فارمیٹ میں آنے والی چند دوسرے نمایاں پروجیکٹس میں پیٹر جیکسن کی ’دا ہیبٹ‘ اور الفانسو کورونز کی ’گریویٹی‘ شامل تھے جن میں سے آخرالذکر کو اس فارمیٹ کے لیے ایک اور اعلیٰ مقام سمجھا جاتا تھا۔

لیکن جیسے ہی اواتار سینما گھروں سے اتری، تھری ڈی کے لیے جوش و خروش کم ہونا شروع ہو گیا حالانکہ بحث کی حد تک تھری ڈی فلمیں پہلے سے کہیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔

جیسا کہ کیمرون نے یاہو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ دنیا بھر میں تھری ڈی سکرینز کی تعداد گذشتہ 12 سالوں میں چھ ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہ (تھری ڈی فلم) صارفین کے انتخاب کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔

’اگر لوگ اسے پسند کرتے ہیں تو وہ اسے تھری ڈی میں دیکھ سکتے ہیں، نہیں تو اسے ٹو ڈی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘

تاہم برسوں بیت چکے ہیں کہ کسی فلم کی تھری ڈی میں ریلیز بحث کا حصہ بنی ہو۔

بلاک بسٹرز کو کبھی بھی ناقدین کی خاطر تھری ڈی میں نہیں دکھایا جاتا، حتیٰ کہ اربوں ڈالر کمانے والی ایسی فلمیں جو تھری ڈی میں ریلیز ہو رہی ہو کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ (فلمیں) اب حقیقی فنکارانہ اثر نہیں رکھتیں۔ یہ فارمیٹ اب پورے ریکیٹ کا صرف ایک حصہ ہے یعنی ایک اختیاری ’ایڈ آن‘ آپشن کی طرح کہ جیسے آپ میٹھے یا نمکین پاپ کارنز لینا چاہتے ہیں، یا آپ کی ڈرنک کا کیا سائز ہونا چاہیے۔

ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ ’صارفین کی پسند‘ کا واقعی فن میں کوئی دخل ہونا چاہیے۔

دی وے آف واٹر میں وقت، پیسہ اور تکنیکی آرٹ کے استعمال کو دیکھتے ہوئے، میں قائل نہیں ہوں کہ کیمرون بھی پوری طرح ایسا چاہتے ہیں۔

یقیناً یہ اس فارمیٹ کے لیے مدد گار نہیں ہو سکتا کیوں کہ زیادہ تر سب سے بڑی تھری ڈی ریلیزز تیسرے (زی) ڈائمینشن کو ذہن میں رکھے بغیر فلمائی گئی ہیں۔

سٹوڈیوز کے لیے فلموں کو شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد تھری ڈی میں تبدیل کرنا اکثر سستا اور زیادہ موثر ہوتا ہے۔

فارمیٹ میں اس تبدیلی کا معیار بہت زیادہ مختلف ہوتا ہے، جیسا کہ سپیکٹرم کے ناقص اختتام کے نتیجے میں 2010 کی ’کلیش آف دا ٹائٹنز‘ پر لوگوں کو قہقہے لگانے کا موقع ملا۔

یہ ایک ایسی فلم تھی جس کے خوفناک تھری ڈی کٹ کو خود فلم کے ڈائریکٹر لوئس لیٹریئر نے مسترد کر دیا تھا اور جس پر کچھ ناقدین نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ تھری ڈی انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش تھی۔

اس حوالے سے تنزلی کے دیگر اسباب بھی تیزی سے واضح ہوئے، جن میں ٹکٹ کی زیادہ قیمت، فلم کی کوالٹی کا اکثر خراب ہونا اور پھر وہ تھری ڈی والی عینکیں۔

لیکن اس فارمیٹ نے کبھی بھی اپنی صلاحیت کو مکمل طور پر نہیں کھویا۔

ہالی وڈ کی چکاچوند سے دور کچھ فلم ساز تخلیقی مقاصد کے لیے تھری ڈی کے ساتھ تجربات میں کامیاب ہوئے ہیں۔

لیجنڈری فرانسیسی مصنف جین لوک گوڈارڈ نے اپنی 2014 کی فلم گڈ بائی ٹو لینگویج کے لیے تھری ڈی کا استعمال کیا تھا۔

اپنی مرضی کے مطابق ڈھالے گئے کیمروں سے شوٹنگ کی اور تھری ڈی فلم سازی کے بہت سے طویل عرصے سے جاری ویژول روایات کو توڑ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چینی ہدایت کار بی گین نے 2018 میں ’آ لانگ ڈیز جرنی ان ٹونائٹ‘ کو ریلیز کیا، جو ایک منفرد خواب جیسی فلم تھی، آدھی فلم کے بعد ایک گھنٹہ طویل ٹریکنگ شاٹ کے لیے تھری ڈی میں بدل جاتی ہے۔

جس چیز کو کمتر نہیں سمجھا جانا چاہیے وہ ہے تھری ڈی کی قدر جو سینما گھروں کے لیے یو ایس پی (یونیک سیلنگ پوائنٹ) کی طرح ہے۔

سٹریمنگ سروسز سے تھیٹر میں فلم دیکھنے کے تجربے کو بڑھتے خطرے کو اواتار: دا وے آف واٹر جیسی کسی فلم کی تھری ڈی سکریننگ ناظرین کو ایسا تجربہ فراہم کر سکتی ہے جس کا وہ گھر پر تصور بھی نہیں کر سکتے۔

2010 کی دہائی کے دوران ایک مختصر وقت کے لیے تھری ڈی ٹیلی ویژن کی مانگ پیدا ہوئی جو جلد ہی ختم ہو گئی۔

(بی بی سی اور سکائی نے تھری ڈی پروگرامنگ کو بہت جلد ترک کر دیا اور اس کے بعد سے تھری ڈی ٹی وی پر پروڈکشن مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے)۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا دا وے آف واٹر تھری ڈی فارمیٹ کو معدوم ہونے سے بچا پائے گا؟ کچھ لوگ بلاشبہ بحث کر سکتے ہیں کہ اسے بچانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن داو پر ٹکٹوں کی فروخت سے زیادہ لگا ہوا ہے۔

اواتار کے سرسبز و شاداب نظاروں کو اپنے ارد گرد ایک بڑے سیلولائڈ بیئر ہگ کی طرح محسوس کر کے ہم یا دوسرے فلم ساز جان سکتے ہیں کہ تھری ڈی فلمیں کیوں بنائی جانی چاہیے۔ 

یہ تھری ڈی کی قلیل مدت کے لیے مالی فوائد کی لڑائی نہیں بلکہ اس کی روح ہے۔

اگر ہالی ووڈ واقعتاً یہ چاہتا ہے کہ لوگ تھری ڈی کو محض مضحکہ خیز فروخت کرنے والی چالوں سے زیادہ کے طور پر سمجھیں، تو اس کے لیے سٹیریو سکوپک شیشوں والی عینک سے زیادہ کی ضرورت ہو گی۔

’اواتار: دی وے آف واٹر‘ 16 دسمبر سے سینما گھروں کی زینت بن گئی ہے۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم