میں اگلے جنم میں سائیکلسٹ ہرگز نہیں ہوں گا؛ میٹ پرائر

میٹ پرائر کے لیے سب مشکل ٹور ڈی فرانس کا 18 واں مرحلہ تھا۔ دو سو کلو میٹر کے اس مرحلے میں الپس کے پہاڑی سلسلے کے ’کول ڈی آئزورڈ‘ اور’کول ڈی گالیبیئر‘ کے دو درے تھے۔

37 سالہ میٹ پرائر کو نقشے کے مطابق ہرکلومیٹرطے کرنا پڑا لیکن اس کا انہیں خوب فائدہ ہؤا۔ انہوں نے نو شوقیہ سائیکلسٹوں کے ساتھ مل کر اس تحریر کے وقت تک تین خیراتی اداروں کے لیے ایک لاکھ 60 ہزارپاونڈز سے زیادہ رقم اکٹھی کی(اے ایف پی)۔

تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس کرکٹ کے سابق برطانوی کھلاڑی میٹ پرائر کے لیے ریس کے فاتح کولمبیا کے سائیکلسٹ ایگن برنل کے مقابلے میں زیادہ مشکل تھی۔ سابق وکٹ کیپر میٹ پرائرریس کا ہر مشکل مرحلہ طے کرکے ہفتے کو پیشہ ور سائیکلسٹوں سے ایک روز پہلے پیرس میں داخل ہوئے۔ لیکن اس کے بعد سائیکل ریس کے روٹ پر واقع ٹگنس نامی گاؤں کی طرف جاتے ہوئے ریس میں ان کا 19 واں مرحلہ کوئی پہاڑی تودہ گرنے سے مختصر نہیں ہؤا اور نہ ہی  گاؤں وال تھرونز کی طرف سے جاتے ہوئے  ایسے ہی کسی خطرے کے پیش نظر 20 ویں مرحلے کے دورانیے میں کوئی کمی ہوئی۔

نہیں، 37 سالہ میٹ پرائر کو نقشے کے مطابق ہرکلومیٹرطے کرنا پڑا لیکن اس کا انہیں خوب فائدہ ہؤا۔ انہوں نے نو شوقیہ سائیکلسٹوں کے ساتھ مل کر اس تحریر کے وقت تک تین خیراتی اداروں کے لیے ایک لاکھ 60 ہزارپاونڈز سے زیادہ رقم اکٹھی کی۔ یہ رقم’دی 21‘نامی منصوبے کے تحت اکٹھی کی گئی۔ اس حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی نہیں گئی تھی۔ مکینکوں، ڈاکٹروں اوردوسرے عملے کی امدادی ٹیموں سے بھرپور مدد لی گئی۔

میٹ پرائرنے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا:’اس تجویز کے پس منظر میں تجربہ کرنا تھا کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد سے ہمیں ٹھیک ٹھیک کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ جس نے بھی ہماری مدد کی اس کا تعلق کسی نہ کسی پیشے سے ہے۔ سائیکلسٹوں کو یہ سب بہت اچھا لگا:کارسے بوتلیں نکالنا، کھانے پینے کی فراہمی یہ سب کچھ بہت عمدہ ہے۔ میرا پوری دیانتداری سے خیال ہے کہ اگر آپ اکیلے ہوں تو مشکلات تین گنا بڑھ جاتیں گی۔‘

میٹ پرائر کے لیے سب مشکل ٹور ڈی فرانس کا 18 واں مرحلہ تھا۔ دو سو کلو میٹر کے اس مرحلے میں الپس کے پہاڑی سلسلے کے ’کول ڈی آئزورڈ‘ اور’کول ڈی گالیبیئر‘ کے دو درے تھے۔ میٹ پرائرکہتے ہیں:’فاصلے اور بلندی کی وجہ سے یہ دن ایک طرح سے میرے لیے بہت سخت تھا۔ درہ گالیبیئر اصل میں اتنا برا نہیں تھا کیونکہ یہ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے۔ جو بات مشکل ہے وہ 12، 13 اور 14 فیصد کے تناسب سے مسلسل بلندی ہے۔ اس جگہ آپ ایک جانب کو نہیں لڑھکتے۔‘

’مرحلہ وار ریس میں وقت بہت لگتا ہے۔ یہ وقت تکلیف اٹھانے اور سوچنے کا ہوتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ خود سے سوال کرتے ہیں:ہم کیا کر رہے ہیں؟ لیکن جب آپ واپس پہنچ کر سوشل میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو دن بھرکی تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔ خیراتی اداروں میں کسی ایک نے آپ کو سکول کے بچوں کی ترغیب پر مبنی تقریر کی ویڈیو بھیجی ہوتی ہے۔ اس طرح آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میٹ فرائر مزید کہتے ہیں:’دماغی کھیل، میرا خیال ہے کہ اس وجہ سے مجھے سائیکلنگ بہت پسند ہے۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں، کتنا کماتے ہیں اور کون ہیں؟ جب آپ پہاڑ پر پہنچتے ہیں اورآپ کے پاس کچھ نہیں بچتا:یہ بہت دیانتدار کھیل ہے کیونکہ اس میں کچھ برا نہیں ہے۔ آپ کو کام مکمل کرنے کے لیے طریقہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔‘

میٹ پرائر اتنے جذبے کے ساتھ سائیکلنگ میں حصہ لیتے ہیں کہ انہیں بھول جاتا ہے کہ ان کا پہلا پیار کرکٹ کا کھیل ہے۔ دنیا کی مشہور ترین ریس میں حصہ لیتے ہوئے تین ہفتے تک سائیکل کی سواری کے بعد کیا وہ نہیں چاہیں گے کہ اگلے جنم میں سائیکلسٹ ہوں؟

میٹ پرائرتسلیم کرتے ہیں:’اوہ خدا نہیں۔ بالکل نہیں۔ میں سائیکلسٹوں کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن نہیں۔ یہ ایسا کام نہیں جسے کرنے کی مجھے کبھی خواہش رہی ہو۔‘

’یہ بڑا سخت اور مشکل ہے۔ سائیکلنگ بذات خود ماضی میں مغرب میں مقبول کھیلوں میں سے ایک ہے۔ ہم فطری طور پر سائیکلسٹ ٹیم کی حمائت کم ہی کرتے ہیں اور بلندی کی طرف جاتے ہوئے بعض سائیکلسٹوں سے کوئی شاندار استقبال نہیں کیا جاتا۔ بعض ٹیمیں اچھے ڈھانچے کی مالک نہیں ہیں۔ کرکٹ اور فٹ بال کے مقابلے میں سائیکلنگ کہیں پیچھے ہے۔‘

’مجموعی طور پر سائیکلسٹوں، ان کی ٹیموں اور اس کھیل کی حمائت میں اضافے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سائیکلنگ ایک شاندار کھیل ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل