ڈی آئی خان: پولیس چوکی پر ’بڑا حملہ‘ ناکام، چار اہلکار زخمی

ضلعی پولیس افسر محمد شعیب نے بتایا: ’ 20 سے 30 شدت پسندوں نے جمعرات اور جمعے کی رات تقریباً 12 بجے چوکی پر حملہ کیا اور تقریباً تین بجے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔‘

ڈی پی او محمد شعیب نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی کی پولیس چوکی پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کا بہادری سے مقابلہ کیا (محمد شعیب)

پولیس کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) کی تحصیل کلاچی میں ایک پولیس چوکی پر گذشتہ رات شدت پسندوں کے ایک ’بڑے حملے‘ کو ناکام بنا دیا گیا، جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

یہ حملہ کلاچی پولیس سٹیشن کی حدود میں ٹکواڑہ پولیس چوکی پر کیا گیا، جو مقامی آبادی کے اندر بنائی گئی ہے اور اس کا رقبہ تقریباً پانچ کنال ہے۔

ڈی آئی خان کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) محمد شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 20 سے 30 شدت پسندوں نے جمعرات اور جمعے کی رات تقریباً 12 بجے چوکی پر حملہ کیا اور تقریباً تین بجے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا لیکن پولیس نے بہادری کا مظاہرہ کر کے حملے کو ناکام بنا دیا۔

انہوں نے بتایا: ’شدت پسندوں نے 18 سے 20 تک راکٹ فائر کیے اور 30 سے زائد دستی بم پھینکے لیکن چونکہ یہ چوکی حساس تھی تو یہاں پر ہم نے پہلے سے پولیس کی تعداد بڑھا رکھی تھی۔‘

 محمد شعیب نے بتایا کہ اس چوکی پر حالیہ دنوں میں آٹھ کے قریب حملے ہوئے ہیں اور ابھی حالیہ دنوں میں شدت پسندوں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جان سے بھی گیا۔

انہوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں اس چوکی سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر رہتا ہوں۔ مجھے جب بتایا گیا کہ حملے میں چار پولیس جوان زخمی ہوئے ہیں تو پہلے میں حالات کو مانیٹر کر رہا تھا کیونکہ ایسے حالت میں ہم مزید نفری بھیجنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں، کیونکہ بعض شدت پسند مزید نفری بھیجنے کی صورت میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن ہم نے تمام تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے مزید نفری بھیج دی اور میں خود آپریشن میں حصہ لینے پہنچ گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر پہلے ہم نے شدت پسندوں کا مقابلہ کیا اور وہ اپنے ہلاک اور زخمی ساتھیوں کو لے کر فرار ہوگئے جبکہ اس آپریشن میں پولیس کے چار جوان زخمی ہوئے ہیں لیکن ان کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔

ڈی پی او محمد شعیب نے بتایا: ’حالیہ دنوں میں یہ کسی بھی پولیس چوکی پر سب سے بڑا حملہ تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔ ہمیں اطلاع ہے کہ اس حملے کے مقام کے آس پاس کے اضلاع جیسے کہ لکی مروت سے بھی شدت پسند آئے ہوئے تھے اور کسی بڑے کارروائی کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ کلاچی میں شدت پسندوں کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے اور اس سے پہلے بھی یہاں پر مختلف شدت پسندوں نے حملے کیے ہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ علاقے سے شدت پسندوں کا صفایا کر سکیں۔

ڈی پی او محمد شعیب کا کہنا تھا: ’شدت پسند چاہتے ہیں کہ اس چوکی کو ہم خالی کریں لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ اس چوکی کو مزید مضبوط بنا سکیں تاکہ علاقے میں امن برقرار رہ سکے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی علاقے میں دو دن پہلے ہم نے شدت پسندوں کے خلاف ایک بڑا سرچ آپریشن کیا تھا کیونکہ اس علاقے میں شدت پسندوں کی موومنٹ موجود ہے۔

یاد رہے کہ کلاچی پولیس سٹیشن پر اسی طرز کا بڑا حملہ 2011 میں بھی کیا گیا تھا اور شدت پسندوں سے تقریباً پانچ چھ گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس میں کم از کم 12 پولیس اہلکار جان سے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔

رواں برس نومبر کے آخر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے سیز فائر معاہدے کو ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے ملک کے مختلف شہروں میں شدت پسندی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان