ڈالروں کی بارش یا صرف اعلانات؟

ٹھوس اصلاحات کر کے ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو ڈالروں کی بارش محض عارضی خوشی ہی ثابت ہو گی۔

کراچی کے ایک منی چینچر کے دفتر کا منظر (اے ایف پی)

جب سے سال 2023 کا سورج چڑھا، لگتا ہے کہ پاکستان پر ڈالروں کی بارش شروع ہو گئی ہے، لیکن ساتھ ہی ایک انجانا خوف بھی ہے کہ ڈالر آئیں گے بھی یا نہیں۔

اس لیے سہمے ہوئے دل کے ساتھ یہ دعا بھی نکلتی ہے کہ اعلانات حقیقت میں بدل جائیں۔ بری طرح معاشی مشکلات کے دلدل میں پھنسے لوگوں کو نہ ڈالر ملیں گے اور نہ ہی انھیں ان سے کوئی سروکار ہے البتہ ان کے آنے سے غریب کی دشواریوں میں قدرے کمی کی فقط توقع ہے۔

رواں ہفتے جنیوا میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان نے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ ملک میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کے لیے 16 ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے نصف پاکستان اپنے وسائل سے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جب کہ باقی رقم کے لیے بین الاقوامی برادری سے تعاون کے لیے کہا گیا۔

یہ بھرپور مقدمے کا اثر تھا یا کہ دنیا کو پاکستان کی مشکلات کا ادارک، پاکستان کے دوست ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے آئندہ تین سالوں میں نو ارب ڈالر سے زائد دینے کے اعلانات کر دیے گئے۔ لیکن تاحال حکومت کی طرف سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پیسہ آئے گا کس طرح، پیسے ہی آئیں یا ان کے عوض ضروری امدادی سامان بھی۔

کیا یہ تمام رقم امداد ہے یا اس میں کچھ قرض ہے اور اگر ہے تو اس کی شرائط کیا ہے، سوالات بہت ہیں لیکن جوابات ابھی نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حکومت کے عہدیدار پرجوش ضرور ہیں اور ہلکا ہلکا جشن بھی منا رہے ہیں کہ ڈالروں کا اعلان کو پاکستان پر عالمی برداری کا اعتماد قرار دے رہے ہیں یہاں تک کہ حکومت اسے ’غیبی مدد‘ بھی کہہ رہی ہے۔

جنیوا کانفرنس میں کیے گئے اعلانات تک ہی بات نہ رکی بلکہ سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے۔   

جب کہ پاکستان کے مرکزی بینک میں سعودی عرب کی طرف سے بطور ’ڈیپازٹ‘ رکھی گئی رقم کو بھی پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے غور کرنے کا کہا۔   

ادھر متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو دیے گئے دو ارب ڈالر کے قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ارب ڈالر مزید قرض دینے کا اعلان کر دیا ہے۔  

ان تمام تر اعلانات کے باوجود پاکستان کی نظریں عالمی مالیاتی فنڈ ’آئی ایم ایف‘ پر لگی ہوئی ہیں اور بات چیت بھی جاری ہے تاکہ آئی ایم ایف قرض کی آئندہ قسط جلد مل سکے۔ 

واضح رہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول کچھ شرائط ہی کے ساتھ ممکن ہوتا ہے، عالمی مالیاتی ادارے پیسے تو دیتے ہیں لیکن اصلاحات کا بھی کہتے ہیں اور اگر ضروری معاشی اصلاحات نہ ہو تو پھر مشکلات بڑھتی ہیں کم نہیں ہوتی۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ