لندن ایئرپورٹ پر یورینیم ایرانی شہریوں کا ’ڈرائی رن‘ آپریشن تھا: ماہرین

برطانوی اخبار ’ٹیلی گراف‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر یورینیم کی کھیپ دراصل چند ایرانی شہریوں کی جانب سے برطانیہ کے کسٹم حکام کی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے ’ڈرائی رن‘ کا آغاز تھا۔

30 نومبر 2021 کی اس تصویر میں ایک مسافر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اپنا سامان لے جاتے ہوئے (اے ایف پی)

برطانوی اخبار ’ٹیلی گراف‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر یورینیم کی کھیپ دراصل چند ایرانی شہریوں کی جانب سے برطانیہ کے کسٹم حکام کی صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے ’ڈرائی رن‘ کا آغاز تھا۔

یورینیم کی یہ کھیپ گذشتہ برس کے اختتام پر 29 دسمبر کو بارڈر فورس کے عملے کی آٹھ روزہ ہڑتال کے درمیان لندن کے ہوائی اڈے پر پکڑی گئی تھی۔

حکام نے کہا تھا کہ یہ یورینیم پاکستان سے عمان ایئر کی پرواز کے ذریعے ملک میں لایا گیا تھا۔

برطانوی ٹیبلوئڈ ’دا سن‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ مواد عمان کی فضائی کمپنی ’عمان جیٹ‘ کی ایک پرواز کے ذریعے ہیتھرو ہوائی اڈے کے گیٹ نمبر چار پر پہنچا اور اس پرواز نے پاکستان سے اڑان بھری تھی۔

تاہم پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’ہم نے میڈیا پر چلنے والی خبریں دیکھی ہیں، لیکن ہم سے اس بارے میں کوئی معلومات سرکاری طور پر شیئر نہیں کی گئیں۔ ہمیں اعتماد ہے کہ یہ خبریں درست نہیں ہیں۔‘

ٹیلی گراف کی رپورٹ میں ایک سابق ملٹری انٹیلی جنس افسر فلپ انگرام کے حوالے سے کہا گیا کہ اس کھیپ کو برطانیہ میں ایران کے رجسٹرڈ کاروبار کو بھیجا گیا تھا لیکن اسے برطانوی کسٹم کے نظام کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ’ڈرائی رن‘ کے طور پر استعمال کیا گیا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وصول کنندہ سے برطانوی پولیس نے رابطہ کیا ہے، تاہم کیس میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ برطانیہ کی ملکی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو بھی تحقیقات میں شامل ہے۔

انگرام نے ٹیلی گراف کو بتایا: ’یقینی طور پر اس بات کا امکان موجود ہے کہ یورینیم کی یہ منتقلی اس بات کی جاسوسی یا ڈرائی رن کی کوئی شکل ہوسکتی ہے کہ ایئرپورٹ پر سکیورٹی کا نظام کیسا ہے۔‘

انگرام نے تابکار مادے پر مشتمل پیکج کا پتہ لگانے پر ہیتھرو حکام کی تعریف کی، جس میں دھات کی سلاخوں میں چھپی ہوئی یورینیم کی تھوڑی مقدار موجود تھی۔

ایک سیکورٹی ذرائع نے کہا: ’ہمیں کافی رپورٹس ملتی ہیں لیکن بہت ساری معلومات غلط ہوتی ہیں اور آپ کو ہر ایک پر کارروائی کرنا ہوتی ہے۔ اس کا حقیقی ہونا غیر معمولی بات ہے۔‘

میٹروپولیٹن پولیس کاؤنٹر ٹیرر کمانڈ کے چیف رچرڈ سمتھ نے کہا: ’میں عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آلودہ مواد کی مقدار بہت کم تھی اور ماہرین نے اس امکان کا اندازہ لگایا ہے کہ اس سے شہریوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘

ان کے بقول: ’اگرچہ ہماری تفتیش جاری ہے لیکن اب تک کی ہماری انکوائری سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کسی براہ راست خطرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’تاہم جیسا کہ عوام توقع کرے گی، ہم انکوائری کے تمام دستیاب خطوط پر عمل کرتے رہیں گے تاکہ ہم یقینی طور پر کہہ سکیں کہ ایسا ہی ہے۔‘

یورینیم وہ تابکار مادہ ہے جس سے ایٹم بم بنایا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے بھاری مقدار میں افزودہ یورینیم دکار ہے اور ملکی وسائل کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ 

البتہ یورینیم اور اس جیسی دوسری تابکار دھاتوں کو ’ڈرٹی بم‘ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ عام دھماکہ پیدا کرنے والا بم ہوتا ہے جس کے اندر یورینیم رکھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ بڑے علاقے میں پھیل کر تابکاری پھیلا دے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا