بعض اوقات ایک فنکار کی تصویر ہزار لفظوں اور بے شمار کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔
انسانی سوچ نہ چاہتے ہوئے بھی ماحول اور حالات کے زیر اثر رہتی ہے۔
چونکہ افغانستان کا ماحول اور حالات باقی دنیا سے مختلف ہیں تو فنکار کی سوچ کا زاویہ بھی مختلف ہو گا۔
52 سالہ استاد شفیق برنایار کابل یونیورسٹی کے فائن آرٹ انسٹیٹیوٹ میں گذشتہ 21 سال سے پڑھاتے ہیں اور سادات پینٹنگ فورم کے نام سے ادارہ بھی چلاتے ہیں۔
انہوں نے ہزاروں شاگردوں کو یہ فن سکھایا ہے اور دو سو کے قریب ان کے فن پارے موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی تکالیف کو ہم افغان اپنی فن نقاشی کے ذریعے دنیا والوں کے سامنے رکھتے ہیں۔
’چونکہ افغانستان تقریباً نوے فیصد خاک اور خشک ہے اسی لیے یہاں خاکی رنگوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ہمارے درختوں پر، ہمارے پھولوں پر، بلکہ ہمارے چہروں پر بھی دھول ہوتی ہے جو ہم فنکاروں کو صاف دکھائی دیتی ہے، اس لیے ہم ان کلاسیک رنگوں کا استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میرے پانچ فن پارے جناب نوازشریف صاحب کی طرف سے خریدے گئے جو ان کی پرسنل گیلری میں محفوظ ہیں۔
’پندرہ سولہ سال پہلے افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک نمائش ہو گئی تھی جس میں خوش قسمتی سے میرے پانچ فن پاروں کو غیر ملکیوں نے بڑی حوصلہ افزائی اور سرٹیفیکیٹس کے ساتھ اچھی قیمت میں خریدا۔ افغانستان کی کئی وزارتوں سمیت امریکہ اور دوبئی میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش ہو چکی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
استاد شفیق کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ جمہوریت کے دوران فن نقاشی کی آزادی تھی۔ ہم نمائش منعقد کر سکتے تھے، اس میں حصہ لے سکتے تھے، ہم عورتوں اور لڑکیوں کو پڑھا اور سکھا سکتے تھے لیکن جب سے امارت اسلامی آ گئی ہے ہم تصویر کا کام نہیں کرسکتے۔
’اگر کچھ بھی کرتے ہیں تو امارت اسلامی کی نظروں سے چھپا کے کرتے ہیں۔ بار بار ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ہماری ورکشاپ کو کئی بار بند کر دیا گیا۔ کابل یونیورسٹی میں رکھی ہماری تصاویر کو، بالخصوص عورتوں کی تصویروں کو پھاڑا گیا اور مصوری پر پابندی لگا دی گئی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’ہم نے امارت اسلامی کے کئی آفیشلز سے گفتگو کر لی اور فن نقاشی کو اسلامی نکتۂ نظر سے ان کو تشریح بھی کیا۔ انہیں بتایا کہ فن نقاشی کی بہت پرانی تاریخ ہے، زباں سے پہلے مصوری وجود میں آئی، ہم نے بہت دلائل ان کے سامنے رکھے لیکن کچھ افسران قبول کرتے ہیں جبکہ کچھ نہیں کرتے۔ خاص طور پر امر بالمعروف والے جو یہی کہتے ہیں کہ نقاشی بند ہونی چاہیے کیونکہ یہ تصویر ہے اور اس کو روح نہیں دے سکتے۔ ابھی تک ہم ان کے ساتھ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔‘