نجف کی تنگ گلی جہاں سے حکمت کی کشادہ راہیں کھلتی ہیں

زبیدی کی دکان پر اگر کسی غیرملکی مصنف کی کتاب موجود نہ ہو تو سائل کو خالی ہاتھ بھیجنے کا رواج نہیں۔ وہ ہر ممکن حد تک کوشش کرتے ہیں کہ وہ کتاب دیگر عرب ممالک سے منگوا کر دی جائے۔

محسن زبیدی کی پوری دکان یورپی، عربی اور روسی فلسفہ دانوں، شاعروں، افسانوں اور ڈراموں کی معروف کتابوں کے عربی تراجم سے بھری پڑی ہے۔ (تصاویر: مصنفہ)

میں مولا علی کے روضے کے صحن میں کھڑی تھی کہ نظر پڑی اک قدرے بلند مگر تنگ سی گلی پر۔ اس گلی کے مرکزی داخلی دروازے پر ’سوق الحویش‘ کا بورڈ لگا تھا۔ یاد آیا یہ نجف کی وہی مارکیٹ ہے جہاں صرف کتابیں ملتی ہیں۔ اس کتب بازار کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں رات کو بھی دکانیں بند نہیں کی جاتیں۔ دکاندار اس یقین کے ساتھ گھر چلے جاتے ہیں کہ جو کتاب پڑھے گا وہ چور نہیں ہوسکتا۔

بالفرض کسی طالب علم کو رات کے کسی پہر کوئی کتاب بھا گئی اور دل لینے کو مچل گیا تو کتاب کی جگہ پیسے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہاں کے دکاندار بتاتے ہیں کہ اکثر صبح انہیں کتابوں کے ڈھیر پر عراقی دینار رکھے ملتے ہیں۔

کتابوں کے اس مرکز میں قرآن پاک، تفاسیر، ادیان، فقہ، شریعت، حسینیت، تاریخ اسلام، فلسفہ اسلام، فلسفہ مذاہب غرض مذہب سے متعلق ہر موضوع پر کتاب ملے گی۔ تقریبا تمام ہی کتب فروش دینی کتابیں بیچ رہے ہیں مگر اسی گلی میں اک دیوانہ بھی بیٹھا ہے۔ نجف میں محسن زبیدی کی دکان پر فیدور دوستوسکی، نتشے، فریڈرک اینجلز، سیگمنڈ فرائڈ، کافکا، چومسکی یہاں تک کہ کارل مارکس کی لکھی متنازعہ و نایاب کتابیں رکھی ہیں۔

میں کتابوں کی اس گلی سے نجانے کتنی بار گزرتے ہوئے نظر دوڑاتی تو ہر جانب دینی کتابوں کی بہار تھی۔ اک روز کتاب کے سرورق پر چھپی یورپی بابے کی تصویر پر نظر پڑی، میں نے بےیقینی سے کتاب اٹھا کر دیکھی تو یہ جرمن فلاسفر اور ادیب فریڈرک نتشے  کی کتاب ’دی برتھ آف ٹریجڈی‘ کا ترجمہ تھا۔ مسکراہٹ و حیرت سے میں دیگر کتابیں ٹٹولنے لگی، پوری دکان یورپی، عربی اور روسی فلسفہ دانوں، شاعروں، افسانوں اور ڈراموں کی معروف کتابوں کے عربی تراجم سے بھری پڑی ہے۔

مجھے عربی نہیں آتی اور محسن زبیدی اردو، انگلش سے نابلد۔ کافی دیر تک تو وہ خاموشی سے میری دلچسپی کا جائزہ لیتے رہے پھر نہایت جذباتی انداز میں دکان کے سب سے بلند شیلف پر سجی تصویریں دکھاتے ہوئے کہنے لگے ’ھذا سارتر، کافکا، جیکوئس لاکان، ایلف شفک، فلسطینی شاعر محمود درويش، ھذا سمیع القاسم‘۔ محسن زبیدی بہت کچھ بتانا چاہتے تھے وہ عربی میں نجانے کیا کچھ بولے جارہے تھے، میں بغیر وقت ضائع کیے اردو عربی مترجم ڈھونڈنے نکل گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مترجم ملا تو جیسے محسن زبیدی کو زبان مل گئی۔ وہ بتا رہے تھے کہ عراقی نوجوانوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان ابھی باقی ہے۔ محرم اور صفر کے مہینوں کے علاوہ سارا سال غیرمذہبی کتب اکا دکا کرکے فروخت ہو ہی جاتی ہیں۔

ہم باتیں کر رہے تھے کہ اسی گلی سے ہر کچھ دیر بعد عمامہ و جبہ میں ملبوس مولوی گزرتے ہوئے محسن زبیدی کو بھی سلام کرتے۔ میں نے پوچھا کہ یہ تمام فلسفہ جو ان کی دکان پر موجود ہے مذاہب خاص طور پر اسلام سے یکسر مختلف بلکہ متضاد ہے کیا یہاں کے مولوی اعتراض نہیں کرتے کہ کافروں کے فلسفے کیوں بیچ رہے ہو؟ محسن زبیدی میری تشویش پر مسکرا کر کہنے لگے ’سیگمنڈ فرائیڈ اور فریڈرک اینجلز نے نفسیات سمجھائی، جین پال سارتر سماجیات پر لکھتا ہے، گاسٹون بیچ لارڈ سائنس اور فلسفے کی بات کرتا ہے، کافکا کی کہانیاں زندگی سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، یہ سب کا سب صرف علم ہے، نجف کے مدارس کے مولوی ان کتب کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی دینی کتب کی، بہت سے مدارس کے اساتذہ اکثر آتے ہیں وہ ان کتابوں کے مستقل قاری ہیں۔ ہاں مدارس کے طلبا کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ نہ تو ان کو اتنا شعور و آگہی ہے کہ وہ موٹی موٹی دینی کتب کے ساتھ مغربی فلسفہ بھی پڑھیں اور نہ ہی ان کی جیب اجازت دیتی ہے کہ وہ ایسی کتب خریدیں۔‘ تھوڑا توقف کے بعد زبیدی کے چہرے پر سنجیدگی آگئی شاید کچھ یاد آیا مگر وہ بتانا نہیں چاہ رہے تھے بس اتنا ہی کہا ’ کسی کو اچھا لگے یا برا، فلسفہ و ادب کی کہ یہ کتابیں میری محبوب ہیں۔ یہ کتب نجف میں علم کے طالبین کو ملتی رہیں گی۔‘

عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا رجحان بہت ہے۔ حرم مولا علی کی لائبریری کے تحت دنیا کے لگ بھگ تمام ہی جدید و قدیم علوم کی کتابوں کا ترجمہ کرنے شعبہ موجود ہے۔ یہ ادارہ بلاتخصیص مذہب ہر اچھے لکھاری کی کتاب کا عربی ترجمہ کرتا ہے۔ ترجمہ ہوتے ہی یہ کتابیں حرم کی لائبریری میں شامل کر دی جاتی ہیں تاہم یہ ایک ادارہ کافی نہیں۔ بغداد اور نجف کے بہت سے پبلشرز بھی بین الاقوامی شہرت یافتہ لکھاریوں کی کتابیں عربی ترجمہ کرانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ انداز لگاسکتے ہیں کہ عربی قارئین کم از کم کسی بھی اچھی کتاب سے محروم نہیں رہ سکتے۔

ہر دینی و روحانی مرکز کی طرح نجف میں بھی بازار مذہبی اشیاء سے بھرے ہوئے ہیں جن میں تسبیح، خاک کربلا، مقدس سجاوٹی اشیاء، قرآن پاک کی آیات سے سجے فن پارے، قیمتی پتھر اور مذہبی کتب نمایاں ہیں۔ یہاں انہی چیزوں کی زیادہ طلب ہے ایسے میں محسن زبیدی کے کتب خانے سے بھاری بھر کم فلسفے کی کتابیں کوئی شاذونادر ہی خریدتا ہے۔

ظاہر ہے محسن کی آمدنی رنگ برنگے پتھر بیچنے والے تاجر کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا انہیں قطعی افسوس نہیں۔ میں نے آمدنی نہ ہونے پر اظہار ہمدردی کیا تو محسن حرم کی جانب اشارہ کرکے کہنے لگے ’میں علم کے دروازے پر بیٹھا ہوں، مجھے ان کتابوں سے عشق ہے، مجھ سے زیادہ پیسہ بازار میں بیٹھا سیلزمین کما رہا ہے مگر میں نے اپنی دکان کو ان علوم و کتب کے لیے مختص کیا ہے جو کسی کے پاس نہیں۔‘

محسن زبیدی خود بھی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ان کی اپنی کتاب زیر طبع ہے۔ سماجی موضوعات اور انسانی نفسیات ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کے بقول زبان کی فصاحت و بلاغت عربی بولنے والوں کا خاصہ ہے۔ ایک عربی کی گُھٹی میں شعر و ادب ہوتا ہے اس لیے ان کی کتابوں میں ایک بڑا کلیکشن ادب پر مبنی ہے۔ محسن زبیدی خود بھی فلسطینی انقلابی شاعر محمود درويش کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ ان کے مطابق عربی نوجوانوں میں مختصر کہانیاں اور عشق و معشوقی کی شاعری پڑھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ نجف میں یونیورسٹی کی لڑکیاں لڑکے ترک لکھاری ایلف شفک اور امریکی ادیب و فلسفی نوم چومسکی کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتے ہیں اسی لیے یہ کتب ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ یونیورسٹی آف کوفہ کے طالب علم مغربی کلاسیکی و جدید لٹریچر پسند کرتے ہیں۔

اس انوکھے کتب خانے میں ایک شیلف ڈارموں، افسانوں، کہانیوں اور عربی لوک ادب کی کتابوں کے لیے مخصوص ہے جس کے عین اوپر مصر اور عراق کے مشہور کلاسیکی مغنی یعنی گلوکاروں کی تصاویر بڑے چاؤ سے رکھی ہوئی ہیں۔

زبیدی کی دکان پر اگر کسی غیرملکی مصنف کی کتاب موجود نہ ہو تو سائل کو خالی ہاتھ بھیجنے کا رواج نہیں۔ وہ ہر ممکن حد تک کوشش کرتے ہیں کہ وہ کتاب دیگر عرب ممالک سے منگوا کر دی جائے۔ اسی وجہ سے یہ کتاب خانہ زبیدی کا بزنس نہیں ایک مشن لگتا ہے۔

اس کتب خانے نے میرے اس گمان کو رد کیا کہ نجف میں صرف مذہب پنپتا ہے۔ یہاں دین کے علاوہ کوئی بات قابل قبول نہیں۔ میری غلط فہمی میں دراڑ ڈالنے کے لیے محسن زبیدی فلسفہ و علوم مشرق و مغرب کی یہ دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ سوق الحویش کی اس تنگ گلی سے حکمت کی کشادہ راہیں کھلتی ہیں۔ اس ایک ملاقات سے یہ یقین ضرور ہوگیا کہ ماہ و سال چاہے جس رخ جائیں، باب علم مولا علی کے دروازے پر کوئی نہ کوئی دیوانہ علم و عرفان کا پرچم بلند رکھے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ