لطیف آفریدی قتل: ملزم اسلحے سمیت عدالت کیسے پہنچا؟

لطیف آفریدی کی جان کو خطرہ تھا اس لیے انہیں بلٹ پروف گاڑی اور سکیورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود قاتل عدالت کے احاطے میں پہنچ کر انہیں قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

خیبر پختونخوا کے ممتازقانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسی سی ایشن کے سابق صدر عبداللطیف آفریدی عرف لطیف لالا کی نماز جنازہ آج پشاور کے باغ ناران میں ادا کر دی گئی، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

دوسری جانب آج صوبہ بھر میں مختلف مظاہروں سمیت اس واقعے کے خلاف خیبرپختونخوا بار کونسل نے آج عدالتی کارروائی سے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

قاتل کیسے اندر گیا؟

کیپٹل سٹی پولیس افیسر پشاور (سی سی پی او) نے اس واقعے کے بعد تفتیش کا حکم دیا ہے اورایس ایس پی انوسٹی گیشنز کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایک دن کے اندر گذشتہ روز کے واقعہ کی تحقیقات کر کے بتایا جائے کہ پشاور ہائی کورٹ کے اندر یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔

ابھی سرکاری طور پر پولیس کی رپورٹ نہیں آئی جس سے اس واقعے میں ہونے والے سکیورٹی انتظامات میں خامیوں کا تعین ہو سکے۔ تاہم اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے سکیورٹی ماہر اور سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور موجودہ ہائی کورٹ وکیل سید اختر علی شاہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ میں سکیورٹی بہتر ہے، لیکن ملزم خود وکیل تھا اور وکیل کے کپڑوں میں ملبوس تھا، اور وکلا کی تلاشی نہیں لی جاتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لطیف آفریدی کو بلٹ پروف گاڑی اور سکیورٹی فراہم کی گئی تھی اور واحد وہ ایسے شخص تھے جن کی گاڑی عدالت کے احاطے میں اندر جا سکتی تھی۔

انہوں نے بتایا، ’مسئلہ یہ ہوا کہ جو سکیورٹی ان کو فراہم کی گئی تھی ان کو چاہیے تھا کہ وہ بار روم کے باہر بھی پہرہ دیتے۔ عدالتوں میں تلاشی کے معاملے میں امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔ میں خود سینیئر عہدے پر ہوں لیکن میں تیار ہوں تلاشی دینے کے لیے۔‘

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ کے وکیل مطیع اللہ مروت نے بتایا کہ ایک سینیئر وکیل کی تلاشی لینا بہت بری بات ہو گی، اور وہ اس کو معیوب اور اپنی بےعزتی تصور کریں گے۔

مطیع اللہ نے بتایا، ’البتہ جونیئر لوگ اور خاص کر جو مشکوک یا نیا چہرہ ہو، چاہے وہ وکلا کے لباس میں بھی ہوں ان کی تلاشی لی جائے۔ میں پچھلے 15 سال سے پریکٹس کر رہا ہوں اور سب مجھے جانتے ہیں لیکن جس دن مجھ پر بھی شک ہو، میری تلاشی بھی لی جائے۔‘

مطیع اللہ مروت نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے داخلی دروازوں پر سکینر اور واک تھرو گیٹس لگے ہوئے ہیں، تاہم نہ تو وکلا کے لباس میں ملبوس وکلا کی تلاشی لی جاتی ہے اور نہ ہی اکثر وہ سکینر سے گزرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ’اکثر عدالت میں داخل ہونے والوں کی بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے وکلا سکینر میں سے نہیں گزرتے کیونکہ انہیں مقدمے کی پیروی کے لیے پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔‘

مروت کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص سکینر سے بھی گزرے تو چابی اور اسلحہ دونوں ہی الارم بجاتے ہیں، جس صورت میں ملزم چابی دکھا کر اسلحہ چھپانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق عبدالطیف آفریدی کو ذاتی دشمنی کی بنیاد پر گذشتہ روز پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں پستول سے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔

پولیس تفصیلات کے مطابق وکلا کے لباس میں ملبوس عدنان سمیع اللہ نامی ملزم نے بار روم میں داخل ہو کر عبداللطیف آفریدی کو چھ گولیاں ماریں، جس کے بعد ملزم کو عدالت کے احاطے سے ہی گرفتار کر لیا گیا، جبکہ لطیف آفریدی کو زخمی حالت میں پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا۔

تاہم ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق لطیف لالا ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑ چکے تھے۔

اپریل 2021 میں سوات کے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج آفتاب آفریدی اور ان کی اہلیہ، بہو اور تین سالہ نواسے کے قتل الزام میں لطیف آفریدی کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں بعدازاں لطیف آفریدی کی ضمانت بھی منظور ہو گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ روز کے واقعے میں گرفتار ہونے والے ملزم عدنان سمیع اللہ کے بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ وکیل سمیع اللہ آفریدی کے بیٹے تھے، جن کو 2015 میں قتل کیا گیا تھا، جن کے قتل کی ذمہ داری اگرچہ دو شدت پسند تنظیموں جنداللہ اور جماعت الاحرار نے بیک وقت قبول کی تھی، لیکن اہل خانہ کا شک لطیف آفریدی پر تھا۔

جج آفتاب آفریدی بھی عدنان آفریدی کے قریبی رشتے دار بتائے جاتے ہیں۔

گذشتہ روز کے واقعے کے بعد کیپٹل سٹی پولیس افیسر پشاور (سی سی پی او) نے اس واقعے کے بعد تفتیش کا حکم دیا ہے اورایس ایس پی انوسٹی گیشنز کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایک دن کے اندر گذشتہ روز کے واقعہ کی تحقیقات کریں اور بتایا جائے کہ پشاور ہائی کورٹ کے اندر یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔

پشاور پولیس کی جانب سے اس مد میں جاری کیے گئے حکم نامے کے مطابق ایس ایس پی انوسٹی گیشن یہ تحقیقات بھی کریں گے کہ ملزم ہائی کورٹ کے اندر اسلحہ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوا، اور سکیورٹی کے لیے کیے گئے اقدامات میں کہاں کمی رہ گئی تھی۔

پیش کی جانے والی رپورٹ میں اس سوال کا بھی جواب دیا جائے گا کہ پشاور ہائی کورٹ اور اس سے ملحقہ ذیلی عدالتوں میں سکیورٹی انتظامات کی کیا صورت حال ہے اور کون سی سفارشات تجویز کی جا سکتی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان